یوکرین تنازع ، بھارت دو راہے پر!

یوکرین کے معاملے پر بھارت کا متوازن ردعمل ابھی تک صرف روس کے لئے ہی اطمینان کا باعث ہے،جو اس کا ایک آزمودہ شراکت دار اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ جہاں امریکہ اور یورپی یونین کی قیادت بھارت پر زور دے رہی ہے کہ وہ روس کے خلاف اُن کے اقدامات کی حمایت کرے، وہیں غیر جانبداری کا بھارتی مؤقف بھی مغرب کے لئے حیرانی کا باعث ہے۔ تاہم بھارت کی یہ خاموشی آنے والے وقت میں اس کے لئے مہنگی ثابت ہوگی۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اس سے پہلے روس بھارت ایس 400 معاہدے کی مخالفت کے کوئی اشارے نہیں ملے تھے لیکن یوکرین پر حملے کے بعد روس پر عائد کی گئی پابندیوں کی نوعیت اور حدود کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ایس400 معاہدہ بھی ان پابندیوں سے مبرا نہیں ہو گا۔چنانچہ ان پابندیوں سے بھارت کے روس کے ساتھ ایس400 میزائل سسٹم کے حصول سے متعلق معاہدے کا مستقبل نہ صرف غیر یقینی ہو گیا ہے بلکہ روس کے ساتھ اس کے وسیع دفاعی اور تذویراتی تعلقات بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
اکتوبر 2018ء میں طے پانے والے 5.43 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے کے تحت بھارت کو مجموعی طور پر ایس400 میزائل دفاعی نظام کے پانچ یونٹ ملیں گے۔ گو کہ ایس 400 میزائل سسٹم کی شمولیت سے بھارت کی فوجی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا لیکن جنوبی ایشیا کی نازک سکیورٹی صورت حال پر اس کے خوفناک منفی اثرات مرتب ہو ں گے، ایس 400 میزائل سسٹم سے بھارت کی فضائی دفاعی صلاحیت بڑی حد تک تقویت ملے گی کیونکہ یہ نظام 400کلومیٹر سے زائد اثاثوں کو بے اثرکرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ نظام کثیر الجہتی صلاحیتوں سے لیس ہے جیسا کہ ملٹی فنکشن ریڈار، میزائلوںکا پتہ لگانے اور ہدف بنانے کے نظام، طیارہ شکن میزائل سسٹم اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کا حامل ہے جو تین قسم کے میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگرچہ روسی ساختہ دفاعی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے لیکن بھارت کا روس کے ساتھ یہ معاہدہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان سیاسی و عسکری تعلقات میں سنگین رکاوٹیں پیدا کر سکتا ہے۔ اس معاہدے سے بھارت کو امریکی پابندیوں کا بھی سامنا کر سکتا ہے کیونکہ اس پر ”کاؤنٹرنگ امریکہ ایڈورسریز تھرو سینکشنز ایکٹ ”(CAATSA) کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت روس، ایران اور شمالی کوریا پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ پہلے ہی ایس 400 خریدنے والے ممالک پر پابندیاں لگا چکا ہے۔ اگرچہ بھارت کو یقین ہے کہ اسے بائیڈن انتظامیہ سے ایس 400 میزائل سسٹم کے حصول کے لئے چھوٹ مل جائے گی کیونکہ چین سے لاحق نام نہاد خطرے پر نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان وسیع تر سٹرٹیجک ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن یوکرین پر روس کے حملے کے پیش نظر ایس 400 کے معاہدے پر پیشرفت بھارت کے لئے آسان نہیں ہوگی۔
بھارت کے مغربی اتحادیوں بالخصوص امریکہ روسی حملے پر بھارتی ردعمل سے مایوس ہیں۔ بھارت نے یوکرین کے معاملے پر سلامتی کونسل میں ہونے والی رائے شماری میں حصہ لینے سے گریزکیا ۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھی ایک قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جس نے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت پر ایک آزاد بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔ بھارت میں یوکرین کے سفیر ایگور پولیکھا نے بھارتی ردعمل پر اپنے ملک کی تشویش کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بھارتی وزیر خارجہ کے محض اس بیان کہ بھارت تمام تر پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہا ہے،سے غیر مطمئن ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین نے روسی مالیاتی اداروں اور اس کی قیادت پر تاریخ کی کڑی اقتصادی اور انسانی بنیادوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ مغرب کا مقصد وسیع پابندیوں کے ذریعے روس کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا ہے۔
بھارت،جو روس کے ساتھ وسیع دفاعی تعلقات رکھتا ہے، دونوں طرف اپنے اہم شراکت داروں کے ساتھ اسٹریٹجک مخمصے میں پھنس گیا ہے۔ امریکی بلاک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ بھارت کی غیرجانبدارانہ مؤقف کو اب حقیقی معنوں میں غیر جانبدار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یوکرین پرماسکو اور مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث روس اور بھارت کے دفاعی تعلقات پر نئی پابندیوں کے مختصر اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔روس کے حوالے سے بھارتی مؤقف سے امریکہ کے زیرقیادت چار ملکوں آسٹریلیا، بھارت،جاپان اورامریکہ پر مشتمل سکیورٹی بلاک(کواڈ) میں عالمی کردار اور اس کے نتیجے میں ایک اہم عالمی کھلاڑی بننے کی بھارتی خواہش کو زک پہنچ سکتی ہے،اس کے علاوہ ایک ذمہ دار طاقت کے طور بھارت کی عالمی ساکھ کو بھی داغدار کیا ہے اور سب سے بڑھ کر اس تنازعے پر بھارت کے مؤقف سے مغرب میں اس تاثرکو تقویت مل رہی ہے کہ بھارت ایک ناقابل اعتماد شراکت دار ہے۔ (بشکریہ،دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال