پٹرولیم مصنوعات, خیبر پختونخوا میں کاغذ کے بحران اور قیمتوں میں 80فیصد اضافے سے اخبارات کی اشاعت اور پرنٹنگ کی مشکلات بڑھ گئی ہیں

اہم سیاسی ملاقات اور اس کے مضمرات

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی لندن میں پاکستان مسلم لیگ( ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی اہمیت سیاسی طور پر اپنی جگہ مسلمہ ہے ہی دونوں کے درمیان یقینا موجودہ حالات اور حکومت کے معاملات بارے مشاورت اور بات چیت ہوئی ہو گی البتہ اس موقع پر دونوں جانب سے جن خیالات کا اظہار سامنے آیا ہے اس کے تناظر میں دونوں کی ملاقات حالیہ حالات تک محدود نظر نہیں آتی بلکہ ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان مستقبل میں بھی تعاون کے امکانات کے اشارے ملتے ہیں لیکن ماضی کی حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان اس درجے کی ہم آہنگی ناممکن سی بات لگتی ہے بہرحال دونوں جماعتیںجو ایک وقت تک حریف سمجھتی جاتی تھیں اب حکومتی اتحاد میں داخل ہوچکی ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہے کہ ملک کا جو نقصان ہوچکا ہے اس کی تلافی کیسے کی جائے۔نواز شریف نے کہا کہ وہ تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے اب ان کی تمنا ہے کہ ملک کو منزل تک پہنچائیںجبکہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے اور ملک کو درپیش چیلنجز کا اس وقت مقابلہ کرسکتے ہیں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے جو کچھ پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوسکا وہ کریں گے۔بلاول نے مزید کہا کہ جیسے چارٹر آف ڈیموکریسی میں اور اٹھارویں ترمیم میں ہماری پارٹیوں نے مل کر کام کیا تھا’ اب بھی ہم ایسا تاریخی کام کریں گے۔ خیال رہے کہ2006کے دوران بلاول بھٹو کی والدہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت کے معاہدے میں دونوں جماعتوں نے بعض آئینی ترامیم’ سیاسی نظام میں فوج کی حیثیت’ نیشنل سکیورٹی کونسل’ احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں اتفاق رائے قائم کی تھی۔اس ملاقات میں کیا طے پایا ہے اس حوالے سے بعض رہنمائوں نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان عہدوں کی تقسیم وغیرہ پر کوئی بات نہیں ہوئی۔مقامی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں کے درمیان ملک کے نئے صدر مملکت’ چیئرمین سینٹ اور گورنر پنجاب جیسے عہدوں سے متعلق مشاورت ہوگی۔صدرمملکت کے عہدے کے لئے سابق صدر آصف علی زرداری کی مبینہ خواہش کے حوالے سے اطلاعات زیر گردش ہیں اس عہدے کے لئے جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان کے بھی امیدوار ہونے کی اطلاعات ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر عارف علوی کو آئینی اور قانونی طور پر ہٹانے کے حوالے سے فی الوقت کوئی صورت سامنے نہیں اور ویسے بھی یہ ممکن نظر نہیں آتاکیونکہ موجودہ صدر کو ہٹانے کے لئے اِمپیچ(مواخذہ)کرنا ہوگا جس کے لئے دونوں ایوانوں کی اکثریت کا ووٹ چاہیے جو اتحادی جماعتوں کے پاس نہیں۔ صدر عارف علوی کو ہٹانے کے لئے298ووٹ درکار ہیں جو فی الحال ممکن نہیں اس تناظر میں یہ بحث ہی عبث ہے البتہ صدر مملکت نے اپنے عہدے کے وقار کوجس طرح دائو پرلگایا اس کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ مہذب راستہ تو یہ ہے کہ اگر ان کو عمران خان کے ساتھ اتنی لائلٹی (وفاداری)ہے تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔انہوں نے پہلے وزیر اعظم کا حلف نہ لے کر اور بعد میں وزراء کا حلف نہ لے کر عہدے کی توہین کی ہے۔البتہ وزیر اعظم کی صدر سے ملاقات کے بعد یہ برف پگھل گئی اور صدر مملکت نے کابینہ میں نئے شامل ہونے والے وزراء سے حلف لینے کی آئینی ذمہ داری پوری کی آئینی اور قانونی طور پر صدرمملکت کو ہٹانے کی کوئی صورت نہ ہونے کے باوجودبھی اب ان کا اس عہدے پر برقرار رہنا اتنا آسان نظر نہیں آتا ماضی میںصدر مشرف جیسے آمروقت کی جانب سے حالات سے مجبور ہو کر عہدہ چھوڑنے کی مثال موجود ہے ویسے بھی پاکستان میں آئین’ دستورو قانون کی بات تو بہت بعد کی ہے معاملات جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے ہی چلنے اور چلانا مروج فارمولہ ہے ان امور اور عوامل سے قطع نظردو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں ملاقات اور مشاورت اور اس کے بعد ان کی جانب سے جن خیالات اور جذبات کا اظہار کیاگیا ہے ان کو سیاسی کشیدگی کے اس ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا اس لئے قرار دیا جا سکتا ہے کہ اگر دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ دھوبی پاٹ کی بجائے کوئی فارمولہ وضع کرکے ملک میں سول بالادستی اور جمہوریت کے فروغ و استحکام کے لئے کام کریں تو یہ ملکی سیاست میں نئے باب کا اضافہ ہو گا ماضی قریب میں اگردیکھا جائے تودونوں جماعتوں کے درمیان بظاہر مفاہمت کے باوجود چیئرمین سینٹ کے انتخاب اوربعض دیگر مواقع پردرون خانہ ایک دوسرے سے بے وفائی کے شواہد ملتے ہیں ۔دونوں جماعتوں کے درمیان البتہ ایک دوسرے کی حکومت کو سہارا دینے کی بھی واضح مثال پاکستان مسلم لیگ نون کی ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی تشکیل میں مدد دینے کے لئے کابینہ میں شمولیت اور بعد ازاں حالات موافق ہونے پر علیحدگی کی مثال بھی موجود ہے ملکی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جہاں ایک جانب سابق وزیر اعظم عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد میدان میں اکیلے نظر آتے ہیں وہاں فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے سے ان کا مستقبل غیر یقینی بھی بن گیا ہے اس کے باوجود عمران خان سیاسی اور عوامی طور پر جس قسم کا دبائو بڑھا رہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی اتحادی سیاسی جماعتوں کے درمیان روابط استوار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا بہرحال صورتحال واضح ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا اور لندن کی جس ملاقات کا چرچا ہے اس کی بلی بھی جلد ہی تھیلے سے باہر آئے گی ۔

مزید پڑھیں:  عوام کے ساتھ ''کھلواڑ؟