قرضوں کے 80فیصد بوجھ کی ذمہ داری

وزیر اعظم شہباز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں 20ہزار ارب روپے کے قرضے لیے جو کہ 1947ء سے لیے گئے قرضوں میں 80فیصد اضافہ ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا وہ ان قرضوں سے شروع کیا جانے والا کوئی ایک بھی منصوبہ دکھا سکتے ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف نے غیر ملکی قرضوں کا سابقہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو چکا تھا۔ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ملکی قرضوں کے بوجھ کو بڑھایا ہے، عمران خان کی تقریریں ریکارڈ کا حصہ ہیں مگر اب انکشاف ہو رہا ہے کہ ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں لیے گئے ہیں۔ حکومتیں قرضوں کا بوجھ عوام کے کندھوں پر لاد کر رخصت ہو جاتی ہیں مگر عوام کو برسوں تک مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ روپے کی قدر گر جاتی ہے۔ مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور غریب کے شب و روز مشکل سے مشکل تر ہو جاتے ہیں ، مگر قرضوں کی ذمہ داری کوئی جماعت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے، آخر کیوں؟ اس لیے کہ حکمران ملک و قوم کی ضروریات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے فیصلے کئے جاتے ہیں ، تحریک انصاف کو وزیر اعظم شہباز شریف کے الزام کا جواب دینا چاہیے اور ان وجوہات کو بیان کیا جانا چاہیے جن کی بنیاد پر قرضے لینے ناگزیر ہوگئے تھے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی جانی چاہیے کہ شہباز شریف کی طرف سے قرضوں کے حجم میں جو 80فیصد اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہے اس میں کتنی صداقت ہے؟ اگر تحریک انصاف اس کا کوئی ٹھوس جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کرتی ہے تو شہباز شریف کے دعوے کو سچ سمجھا جائے گا۔
جنگلات کو آگ سے بچائیں
موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لئے جنگلات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں جس قدر جنگلات کی ضرورت ہے اس حساب سے جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جو قدرتی جنگلات موجود ہیں ان میں بھی آئے روز آگ لگنے کے ناخوشگوار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جیسا کہ اس وقت بلوچستان کے ضلع شیرانی میں صنوبر کے جنگلات گزشتہ چند روز سے آگ کی لپیٹ میں ہیں، ایک اندازے کے مطابق 40 کلومیٹر تک جنگلات مکمل طور پر جل چکے ہیں، آگ مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ، وزیراعظم شہباز شریف نے متعلقہ اداروں کو آگ پر قابو پانے کی کارروائی تیز کرنے کی ہدایت کی ہے، جب کہ ہمسایہ ملک ایران نے بھی اس آگ بجھانے کے لئے پاکستان کو جدید فائر فائٹنگ طیارہ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
جنگلات میں آتشزدگی حدت میں اضافے کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ اس سے جنگلی حیات بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جنگلات میں آتشزدگی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ٹمپر مافیا بھی رات کے اندھیرے میں جنگل میں آگ لگا دیتا ہے تا کہ اس کی آڑ میں جنگل کی کٹائی کی جا سکے، اسی طرح محکمہ جنگلات کے عملے کی لاپروائی اور نگرانی کا بندوبست نہ ہونے کے باعث بھی جنگلات کم ہوتے جا رہے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ جب جنگل میں آگ لگ جاتی ہے تو اسے بجھانے کے لئے محکمہ جنگلات کے عملے کے پاس درکار آلات اور تربیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے معمولی آگ بڑے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔
پاکستان کا شمار چونکہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں ہوتا ہے، اس تناظر میں جنگلات کا بچاؤ ہمارے لئے بقا کا درجہ رکھتے ہیں، حکومت کو جنگلات کے بچاؤ پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے خاص طور پر جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات کی روک تھام کے لئے محکمہ جنگلات کو بھی جدید آلات کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ محمکہ جنگلات کو جنگلات کی نگرانی کا عمل تیز کرنا ہوگا، اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔
مردہ مرغیوں کی فروخت کا انکشاف
فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے پشاور کے علاقے باچا خان چوک کے قریب ایک دکان سے تین ہزار مردہ مرغیاں برآمد کی ہیں، ان مردہ مرغیوں کو ذبح کر کے مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا تھا، مردہ مرغیوں کو تلف کر دیا گیا جب کہ دکان کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، ملوث افراد کے خلاف یہ اہم پیش رفت ہے۔
مردہ مرغیوں کی برآمد کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی بار مردہ مرغیاں پکڑی جا چکی ہیں، دراصل مردہ مرغیوںکے گوشت کی فروخت میں پورا مافیا سرگرم ہوتا ہے، اس ضمن میں فوڈ سکیورٹی اتھارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرغیوں کی سپلائی اور چکن شاپس کی نگرانی کا عمل تیز کرے تاکہ شہریوں کو مضر صحت مردار گوشت کی فراہمی سے بچایا جا سکے، خاص طور پر ہوٹلوں کو مرغی کے گوشت کی سپلائی کی سخت نگرانی ہونی چاہیے۔
شہریوںکو بھی چاہیے کہ جب وہ دکان سے مرغی خریدیں تو اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح کروائیں، بہتر ہے کہ دکان پر پہلے سے بنے ہوئے مرغی کے گوشت کی خرید اری سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ایسا گوشت مشکوک ہو سکتا ہے، خاص طور پر شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے موقع پر مرغی کے گوشت کی خریداری اچھی طرح دیکھ بھال سے کرنی چاہیے، ایسے موقع پر چونکہ منوں کے حساب سے گوشت خریدا جاتا ہے تو مردہ مرغیاں فروخت کرنے والا مافیا اس صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ