معاشرے کی سوچ

ایک بچہ جب گالی دیتا ہے توہمارے معاشرے میںبچے سے فرمائش کی جاتی ہے کہ ایک بار پھر بولو حالانکہ ماضی قریب میں ہمارے ہاں اور مہذب معاشروں میں بچوں کو گالی کے الفاظ سے اس لئے نابلد رکھا جاتا تھا کہ اس کی لغت میں یہ لفظ آئے ہی نہیں۔ اس طرح وہ شخص اپنی زندگی میں کتنے ہی منازل طے کرتا وہ گالی کو شجر ممنوعہ سمجھتا۔ ظاہری بات ہے کہ خود اس کے اردگرد کے لوگ بھی اس کی گالی سے محفوظ رہتے۔ اب تو خیرگالی اور ذومعنی جملے خواتین کی موجودگی میں بھی کسے جاتے ہیں۔ یہ سارے منازل ہم نے ایک دن میں طے نہیں کیئے۔ اس طرح معاشرہ ایک دن میں انتشار کی اس حد تک نہیں پہنچا کہ اچھے بھلے اداروں پر اوباشوں کی طرح جملے کسے جا رہے ہیں۔ یہ اختلاف یہ عدم برداشت یہ بے یقینی یہ شکوک شبہات ہمارے گھروں میں سرایت کر چکے ہیں۔ روزنامہ مشرق کے لئے کچہری کے موضوعات پر لکھتے ہوئے مجھے احساس ہو گیا تھا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ تو دراصل گھرگھرکی کہانیاں ہیں جو اب فرسٹریشن کی شکل میں باہر نکل آئی ہیں۔ خاندان کو ہمارے معاشرے کی اکائی ہوا کرتا تھا اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ بنیادی وجہ ”سب کی سوچ یا یک طرفہ سوچ”کا ہونا ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا کی مختلف عدالتوں میں طلاق اور خلع کے21 ہزار پانچ سو مقدمات زیر سماعت ہیں جس میں 8000 ہزار صرف پشاور کے ہیں۔ اس کا مطلب صرف خیبرپختونخوا میں21ہزار سے زائد خاندان سماجی بربادی کے دہانے پر موجود ہیں۔ اس میں اکثریت صاحب اولاد ہیں۔ کئی برس بعد جب یہ ٹوٹے گھر کے چشم وچراغ خود کو ٹھکرایا ہوا محسوس کریں گے تو ٹھکرانے کی طرف نہیں جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟ کیا سوشل میڈیا اور کیا سوشل ڈراموں کے نام پر چلنے والی ساس’بہو’ پڑوسی’نندیں اور پتا نہیں کیا کیا رشتے ہیں جن کو گھماگھما کر شک کے دائرے میں لایا جاتا ہے۔ یہ نفرت کی فیکٹریاں دھڑادھڑ کچے ذہنوں میں پکا زہر انڈیل رہی ہیں۔ گھروں کے علاوہ ہماری خواتین کے پاس بدقسمتی سے آگہی اور تفریح کے اور ذرائع تو ہیں نہیں تو بس بیل کی طرح رہٹ کے گرد ہی چکر کاٹ کر رہٹ سے زہر نکال کر اپنے ہی آنگن میں پھیلا رہی ہیں۔ مجھے آرٹ سے کوئی دشمنی نہیں لیکن خدارا یہ آرٹ نہیں ہے۔ اس سے ہماری خواتین کو طبقاتی نظام’ جمہوری قدروں’ اقتصادی جبر’سرمایہ دارانہ نظام’ مذہبی ہم آہنگی’سیاسی سوچ یا تغیرکے حوالہ سے کوئی آگہی نہیں دی جا رہی ہے۔ ایسے میں گھر کے بڑے آنے والی نسلوں کے لئے جان ملٹن کی شہرہ آفاق نظم جنت گم گشتہ کے وہ شعلے ہیں جن سے اندھیرے پھوٹ کر پھیل رہے ہیں۔ ذرا ایک نظر دوڑائیں ہمارے اداکار اور اداکارائیں حالیہ سیاسی بحران میں کیا کہتے رہے۔ یہ تھی ان کی سیاسی سوچ’ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کو یہ بھی پتا نہیں ہوگا کہ73کا آئین کیسے پاس ہوا؟ اس وقت پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈر کون تھے؟ یہ چھوڑیں ان کو یہ بھی پتا نہیں ہوگا کہ اس وقت لیڈر آف دی اپوزیشن کون تھے؟ یہ فرق تو بہت دور کی بات کہ پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام میں کیا فرق ہوتا ہے اور پاکستان کیسے ٹوٹا؟ جھوٹی تاریخ اور سب کا پاکستان کی جگہ یک طرفہ پاکستان سے اس قسم کی تخلیق نے ہی جنم لینا تھا اس میں ویسے حیرانگی والی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ ہوتا ہے آمرانہ برگد کے نیچے جنم لینے والے پودوں کا انجام!اس طرح پروان چڑھتی ہے معاشرے کی سوچ اور پھر یہ نتائج نکلتے ہیں۔ سب کا پاکستان کرپٹ ہے’ سب کا پاکستان غدار ہے’ سب کا پاکستان غیرت سے عاری ہے۔ میں جو کہتا ہوں وہ ہے محب وطن پاکستانی’ ایماندار’ صادق اور امین پاکستانی’ غیرتمند پاکستانی باقی سب لٹیرے ہیں ۔ آئین جو سب نے مل کر بنایا اس کی کوئی اہمیت نہیں میں جو کہوں وہ آئین ہے۔ معاشرے تقسیم سوچ سے ہوتے ہیں جو ایک عمل کی تشکیل کرتے ہیں اور وہی عمل ہمارے معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں نفرت کی جو لہر چل رہی ہے اگر اس کو اسی طرح سے لیا گیا جیسا کہ لیا جارہا ہے یقین مانئے اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ جیسے کہ عرض کیا گیا کہ خاندان جو ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ جو لوگ یک طرفہ پاکستان کی دلیل میں اپنی نئی نسل کو بڑھاوا دے رہے ہیں یقین مانئے کل یہی روئیں گے جب ان کی اپنی اولاد سب کا خاندان سب کی سوچ کی بجائے اپنی یک طرفہ سوچ میں پہلے انتہا پسندی اور پھر تشدد کا راستہ اپنائیں گے۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں یا اس خطہ میں یا اس دنیا میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ اس وقت ہمارے پڑوس بھارت میں یہ سوچ اب انتہا پسندی سے نکل کر تشدد کے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں شکر ہے ابھی ادارے قائم ہیں۔ انہی اداروں کی بدولت امید کی مبہم سی روشنی باقی ہے۔ لیکن جہاں تک ہم پہنچے ہیں وہاں سے نکلنا صرف سوشل میڈیا کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہاں تک ہم صرف سوشل میڈیا کے ذریعہ نہیں پہنچے۔ ہمیں مرمت کا آغاز سکولوں سے کرنا ہوگا۔یہ میڈیا وغیرہ یہ صرف ٹوولز ہیں اوزار ہیں اصل میں مسئلہ سائیلیبس کا ہے نصاب کا ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ایک ٹک ٹک بم کے اوپر بیٹھے ہیں۔ اخلاقیات اور نصب العین سے محروم نوجوانوں کی ایک اکثریت ہے۔ بے روزگاری اور میرٹ کا استحصال اس کے اوپر جنم جنم کی پیچھا کرتی غربت، استحصال اور محرومیوں سے بھرپور ٹھکرایا گیا نوجوان جو ایک ہجوم کاحصہ بن کر اپنی فرسٹریشن اتارنے کے لئے بے تاب ہے۔ ہمیں گھروں کے اندر اس یک طرفہ سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔اگر ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ میکانیکی اور مصنوعی طریقوں سے ہم ان پر قابو پا لیں گے تو آپ سمجھتے رہیں میرا کام تھا آپ کو بتانا کہ آپ کھائی میں گرنے والے نہیں ہیں آپ گر چکے ہیں اب مسئلہ واپس نکلنے کا ہے۔یاد رکھیں جیتنے والے چانس پر نہیں جیتتے وہ بس جیتتے ہیں اور جیتنے والے وہ نہیں کرتے جو ہارنے والے کرتے ہیں۔ ہم ہار کر بھی اگر وہی کرتے ہیں جو کرتے آئے ہیں تو کس طرح جیتیں گے یہ سائنس دیکھنے کا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار