بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے کی تیاری

ویب ڈیسک (زاہد میروخیل)دوہفتے کے قیام کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پشاور سے اسلام آباد کی طرف رخت سفر باندھ لیا ہے پشاور میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے کئی جلسوں سے خطاب کیا اور لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت کی، اس عرصہ کے دوران پی ٹی آئی کی تقریباً تمام قیادت پشاور میں موجود تھی اور کور کمیٹی کے دو اجلاس بھی پشاور میں منعقد ہوئے ہیں، اسلام آباد جانے کے بعد صوبائی حکومت کے حکام کی مصروفیات بھی کم ہوگئی ہیں اور بجٹ کی تیاری کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، خیبر پختونخوا حکومت نے سالانہ بجٹ13جون کو پیش کرنے کا اعلان کر دیا ہے، قبل ازیں صوبائی حکومت نے سالانہ بجٹ2جون کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈز مختص نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی بجٹ کو زیر التوا ڈالا گیا تھا چند روز قبل وفاقی حکومت نے صوبوں کیلئے13سو ارب روپے مختص کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کی روشنی میں صوبے کی بجٹ کی تیاری کی جائے گی.

موجودہ وقت میں خیبر پختونخوا ایک جانب جبکہ ملک کے دیگر حصوں کے لوگ سیاسی نظریات کے لحا ظ سے دوسری جانب کھڑے ہیں جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کی طرف سے موجودہ صوبائی حکومت کیلئے ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نظر نہیں آ رہا ہے پہلی مرتبہ ہے کہ وفاقی اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے مقابلہ پر کھڑی ہیں جس کا تمام تر نقصان عوام کو پہنچ رہا ہے اس مخالفت کا یہ عالم ہے کہ صوبے کی اپنی پیداوار ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ پشاور جیسے بڑے شہروں میں16گھنٹے سے تجاوز کرگیا ہے، گرمی بڑھنے کے ساتھ شہروں میں ہر گھنٹے کے بعد دو سے تین گھنٹے کیلئے بجلی کی سپلائی کا نظام معطل رہتا ہے.

جس نے امن و امان کی صورتحال کو بھی گھمبیر کر دیا ہے لوگوں کو دن کا چین ہے نہ ہی رات کو سکون مل رہا ہے ان حالات میں وفاقی حکومت کیساتھ کشیدگی سے مزید خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اس لئے دونوں حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے کے بغیر لوگوں کیلئے فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کا آغاز مشکل ہوگیا ہے۔2018ء کے انتخابات کے بعد جب مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو خیبر پختونخوا حکومت نے اٹھارویں ترمیم کے تحت حاصل تمام صوبائی اختیارات وفاق کو غیر علانیہ طور پر منتقل کر دئیے تھے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت نے چار سالہ عرصے میں صوبے کے پن بجلی منافع کی مد میں بقایاجات ادا نہیں کئے اس طرح تعلیم اور صحت کا نظام بھی اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی مضمون بن گیا ہے لیکن کورونا کی وبائی صورتحال ہو یا تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو ، یہ تمام فیصلے وفاقی حکومت کی جانب سے کئے جاتے رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی وژن دے سکتا ہے پالیسی بنانے کی ذمہ داری صوبوں کو دی گئی ہے تاہم پی ٹی آئی کے دور حکومت میں صحت اور تعلیم سمیت تمام شعبہ جات کیلئے وژن دینے کی بجائے مرکز سے پالیسیاں بنائی گئیں.

مزید پڑھیں:  لاہور ہائیکورٹ: گندم کے نئے نرخ بارے وفاق سے جواب طلب

جس سے صوبہ مکمل طور پر وفاق کے زیر نگین تھا مذکورہ شعبہ جات میں صوبائی حکومت نے بھی پہلی بار پالیساں بنائی تھیں لیکن اس پر تاحال ایک قدم بھی پیشرفت نہیں ہوئی ہے اوران پالیسیوں کے مسودے الماریوں میں پڑے ہیں اب چونکہ وفاق میں متحدہ جماعتوں کی حکومت قائم ہوئی ہے اور ڈرائیونگ سیٹ پر ن لیگ کو بٹھایا گیا ہے اس لئے اب خیبر پختونخوا کے صوبائی حکام کو اٹھارویں ترمیم یاد آ گئی ہے آئندہ بجٹ میں ان اختیارات کو استعمال کرنے کیلئے عوام پر صوبائی ٹیکسز کے نام پر مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری ہے اب تک ملک بھر میں سیلز ٹیکس کا نظام وفاقی تھا تمام چیزوں پر یہ ٹیکس ایف بی آر کی جانب سے وصول کیا جارہا تھا اس طرح2017ء کے فائنانس بل کی روشنی میں خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی قائم کی گئی ہے صوبائی سطح پر پروفیشنل ٹیکسز وغیرہ کی وصولی کیلئے یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے، تین سال قبل اس ادارے نے تمام سروسز پر ٹیکس لاگو کیا لیکن لوگوں کی جانب سے اس کیخلاف عدالت سے رجوع کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ ٹیکس نہیں وصول کیا گیا اس کے بعد کورونا کی وبائی صورتحال میں بھی پروفیشنل ٹیکس کی وصولی نہیں کی گئی ہے .

موجودہ حکومت نے خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کو ایک قانون کے ذریعے مستقل کر دیا ہے اور اس کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں پہلی مرتبہ سیلز ٹیکس کا قانون بھی صوبائی اسمبلی سے پاس کروا لیا گیا ہے اس قانون کے تحت تمام سروسز پر ایک فیصد سے19.5فیصد تک سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا یہ ٹیکس مہینے اور پندرہ روز کے بعد لیا جائے گا اس طرح آئندہ بجٹ کیلئے صوبائی حکومت نے ٹریڈ اینڈ کامرس سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے کا قانون بھی پاس کیا ہے اس قانون سے پہلی مرتبہ صوبے میں صنعت و تجارت سے متعلق اعداد و شمار سامنے آ سکیں گے جبکہ تمام چیزوں کا ریکارڈ بھی حکومت کے پاس آجائے گا یعنی کاروبار کو دستاویزی کیا جا رہا ہے مذکورہ قوانین اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مخاصمت سے جولائی کے بعد لوگوں پر مہنگائی کا ایک نیا طوفان ٹوٹنے والا ہے پہلے پہل ملک بھر میں صرف ایک مرتبہ ٹیکس لیا جا رہا تھا اب اگر ایک چیز پر وفاقی حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس لیا جاتا ہے اور صوبے میں بھی سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے تو اس سے خیبر پختونخوا ملک کا واحد صوبہ بن جائے گا جس میں تمام چیزیں دوسرے صوبوں کی نسبت مہنگی ہو جائیں گی اور اس کا خمیازہ عام لوگ بھگتیں گے۔

مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس، کوہاٹ اور باجوڑ کے امیدوار حلف اٹھائیں گے

دوسری طرف حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخوا میں حکومت کو مکمل چھوٹ دی ہوئی ہے چند روز میں پی ٹی آئی کی حکومت نے20سے زائد قوانین پاس کئے ہیں جن میں سے ایک قانون پر بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے جبکہ اسمبلی کے اندر بھی کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی ہے جس سے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پختون ولی کے نام پر گٹھ جوڑ بھی لوگوں کے سامنے آ گیا ہے صوبائی اسمبلی میں عوامی مشکلات پر بھی کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے اور ایم پی ایز ترقیاتی فنڈز لینے اور کلاس فور ملازمین کی بھرتیوں سے آگے نہیں جا رہے ہیں اس صوبے میں چار سال سے نیب اور انٹی کرپشن نے بھی پراسرار خاموشی اختیار کی ہے صحت اور تعلیم سمیت کئی شعبوں میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کے بارے میں کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ہے اس حوالہ سے نصف درجن سے زائد درخواستیں دی گئی ہیں لیکن تفتیش کا نظام جوں کا توں کھڑا ہے کہا جا رہا ہے کہ نیا چیئرمین نیب موجود نہیں اس لئے نیب کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی جیسے ہی نئے چیئرمین نیب کا انتخاب کر لیا جائے گا تو صوبے میں کرپشن کے مقدمات بھی کھل جائیں گے اور احتساب شروع ہو جائے گا.

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق گرمی کی وجہ سے سیاسی ماحول سرد ہو جائے گا اور اگست کے بعد ہی لوگ سڑکوں پر آ سکیں گے اس حوالہ سے پی ٹی آئی قیادت نے بھی ایک فیصلہ کیا ہے جس میں انہوں نے وفاقی حکومت کو تین سے چار مہینے کا وقت دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، پی ٹی آئی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ گرمی کے تین مہینوں میں انتظارکیا جائے اس دوران ملک میں تیل اور بجلی کی قیمتیں مزید بڑھنے کا امکان ہے جس سے ن لیگ کی مقبولیت کا گراف نیچے اور پی ٹی آئی کا گراف ایک مرتبہ پھر سے بلند ہو جائے گا اور یہی وہ و قت ہوگا جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت کیخلاف بھر پور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔