دس سالہ پراجیکٹ اور ہماری عادتیں

جیسا کہ پچھلی تحریر میں عرض کیا تھا کہ آنے والا ہر دن تحریک انصاف کے لئے مشکلات لے کر آئے گا تو لگ بھگ وہی ہو رہا ہے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں کہ تحریک انصاف اس طرح کی صورتحال سے گزر رہی ہے ماضی میں نیپ کی شکل میں عوامی نیشنل پارٹی، بھٹو صاحب کے بعد پیپلزپارٹی, ایم کیو ایم اور حال ہی میں مسلم لیگ(ن)کئی سیاسی جماعتیں اس طرح کے مسائل سے گزری ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اس کی تمام تر ذمہ داری اداروں پر ڈال رہی ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ پوری کوشش کی گئی کہ تحریک انصاف کو کسی طریقے سے کارکردگی پر مائل کیا جائے اور عوام کو ایک متبادل پلیٹ فارم فراہم کیا جائے کیونکہ عوام کا اعتماد سیاسی نظام سے اٹھ چکا تھا۔ بدقسمتی سے دیکھا گیا کہ تاریخ میں اتنی کرپشن اور بدانتظامی نہیں دیکھی گئی جو اس قوم کا مقدر بنی۔ داخلی اور خارجی محاذوں پر پاکستان تباہی کے راستے پر گامزن ہو گیا۔ اس وقت بھی دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اور خیبر پختونخواہ میں تو بلاشرکت غیرے یہ دس سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ صرف تعلیم کی حالت دیکھ لیں سکول تک بند کر دیئے گئے ہیں۔انجینئرنگ یونیورسٹی، ایگریکلچر یونیورسٹی،گومل یونیورسٹی، مالاکنڈ یونیورسٹی، چترال یونیورسٹی مطلب آپ نام لیں اور کہا جائے گا کہ بس بند ہونے کو ہے۔ تحریک انصاف نے دس سالوں میں صوبے کو یہ تحفہ دیا۔ پورے صوبے میں ایک بھی سرکاری تعلیمی ادارہ ایسا نہیں بچا جس پر والدین کو اعتماد ہو کہ ہاں ہماری اولاد اس ادارے میں بہترین تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔لوگ بھی جیسے عادی ہو چکے ہیں دس سال کا عرصہ طویل عرصہ ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں صحت کی طرف ایم ٹی آئی کے نام پر جو مذاق اس صوبے کے ساتھ کیا گیا اس کے اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ مغربی ممالک میں اس نظام کی موجودگی وہاں کے عوام کی سہولت کے لئے تھی یہاں پر یہ نظام پورے صحت کے نظام کو برباد کرنے کے لئے لاگو کیا گیا۔ لاکھوں روپے تنخواہ پر منتظمین بھرتی کیئے گئے اور اس کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ امن وامان کی یہ صورتحال ہے کہ صوبائی دارالحکومت کی سڑکیں اتنی غیر محفوظ ہوگئی ہیں کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
جہاں تک روزگار کی بات ہے کسی بھی حکومتی ایم پی اے کو کریدیئے وہ خود اعتراف کرے گا کہ بالکل کرپشن ہو رہی ہے۔ یہ بات چھوڑیں ہر اسامی پر موجودہ نظام میں ریٹ مقرر کیئے گئے ہیں۔ لوگ پیسے دینے میں قطعا تامل محسوس نہیں کرتے بس کہتے ہیں کام ہو جائے پیسہ دینا تو لازم ہے کیونکہ عادت سی پڑ گئی ہے۔ سرکاری اداروں میں کام ٹھپ پڑے ہیں۔ بیوروکریسی کا تو اس سے بھی برا حال ہے۔ آج تعلیم کا سیکرٹری تو کل زراعت میں صاحب محکمہ کو زراعت کی پالیسی سمجھا رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص جہاز اڑا رہا ہو اور جہاز سے اترتے ہی آپ اسے کہیں جہاز اڑا لیا اب ٹریکٹر چلانا تو تمہارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ہر محکمہ اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈال رہا ہے۔ ایک محکمہ بلدیات کا بھی ہے۔ بلدیاتی نظام جام اور بابو لوگ مزے سے بل پر بل پاس کر رہے ہیں۔ زمانہ ہوگیا بلدیاتی انتخابات کو سٹی میئر کب کے منتخب ہو چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ ابھی تک اپنی آنکھوں سے ان کو معاملات سنبھالتے دیکھا ہو۔ وہ یہی رونا روتے ہیں کہ فنڈز ملیں گے تو کام ہوگا نا۔ اب فنڈز کہاں سے آئیں تعلیمی ادارے تو فنڈز نہ ہونے کے باعث بند ہونے کو ہیں۔ ہسپتالوں کو ایک لحاظ سے بیچا جا رہا ہے۔ بڑے ہسپتال پہلے سے ہی خودمختاری کے نام پر مافیاز کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ ان کو چلانے کے لئے بھی امپورٹڈ بندہ رکھا ہے۔ جو انٹرنیٹ سے باہر بیٹھ کر ہسپتال چلا رہا ہے۔ یہ بھی اس کا احسان مانا جا رہا ہے۔ ایک وزیر موصوف تو پریزنٹیشن کو ہی حقیقت سمجھ بیٹھا ہے۔ جو کروڑوں روپے کا فنڈ تھا وہ تو پروپیگنڈے کے لئے بندے رکھنے پر لگ گیا۔
وزیر اعلی محمود خان کی بدقسمتی دیکھیئے کہ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ سب پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو امید کی جا رہی تھی کہ سابق وزیر اعلی پرویزخٹک کے دور میں جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ دہرائی نہیں جائیں گی وہ غلطیاں تو نہیں دہرائی گئیں لیکن ان سے بڑی بڑی غلطیاں صوبے کا مقدر بنیں۔ میری ذاتی رائے میں اگر ان سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں حکومت کہاں کرنے دی گئی۔ اندرونی خلفشار ایک طرف اور مرکز میں موجود پارٹی کی مرکزی قیادت کے تقاضے دوسری طرف اس میں وہ کرتا بھی تو کیا کرتا۔
بہرحال دس سال گزرنے کو ہیں۔ دس سالہ دور اپنے آخری سال میں داخل ہو چکا ہے۔گو کہ حکومت اور عوام اس نظام کے عادی ہو چکے ہیں لیکن اب بھی ان کے پاس وقت ہے کہ وہ صوبے کی گورننس پر توجہ دیں۔ جس غیرحقیقی دنیا میں اس کو چار سال رکھا گیا اب اس کا اختتام ہونا چاہیئے۔ صوبے کی عوام توقع رکھتی ہے کہ بھلے ہی سابق وزیر اعلی امیرحیدرہوتی یا پھر ان سے قبل وزارت اعلی کے منصب پر فائز اکرم خان درانی کے برابر ان کا نام نہ ہو لیکن یہ بھی نہ ہو کہ ان کا نام مستقبل میں بھولے بسرے سے کسی تعمیراتی تختی پر صرف نظر آئے۔ اور اگر صرف یہ سال گزارنا ہی ہے اور ان کو عادت پڑ چکی ہے کہ جس طرح چل رہی ہے حکومت اسی طرح چلے تو شاید وہ عادی ہو چکے ہیں۔ پھر گلہ بنتا ہے ان سے جنہوں نے اس دس سالہ پراجیکٹ کو صوبے پر مسلط کیا۔
بقول گلزار؛
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاں بے حس ہیں چلتے جاتے ہیں
اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
جئے جاتے ہیں جئے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند