کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پیٹرول کی قیمت فی لیٹر قیمت میں6روپے72پیسے اضافہ کردیا۔وزارت خزانہ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں اور ایکسچینج ریٹ میں ہونے والی ردوبدل کی روشنی میں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی تبدیلی کے اثرات عوام تک منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یاد رہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں یکم اگست سے نمایاں کمی ہونی تھی لیکن روپے کی قدر میں کمی، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل)اور ڈیلرز کے کمیشن میں اضافے کی وجہ سے عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی کے فائدے سے صارفین محروم رہے تھے۔ڈالر کے ریٹ میں اضافہ اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کی مناسبت سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری بھر کم اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن اب جبکہ ڈالر کی قیمتوں میں کمی اور روپے کی قدرمیں اضافہ کا رجحان ہے نیز عالمی منڈی میں تیل کی پیداوار میں اضافہ اور قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے اس کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس طرح کا باعث تعجب امر ہے جو حکومت کے حامیوں اور غیر جانبدار افراد سمیت عوام کی سمجھ سے بھی بالاتر امر ہے اس اضافہ کی واحد وجہ آئی ایم ایف کا دبائو ہی ہو سکتا ہے جو قسط کی رقم جاری کرنے سے قبل یقینی طور پر حکومت کی آمدنی میں صارفین پربوجھ ڈال کر اضافہ ہے اب تک عالمی حالات کے تناظر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا کڑوا اور تلخ گھونٹ عوام پینے پر مجبور تھے لیکن حکومت کا حالیہ اقدام عوام کے لئے کسی طور قابل برداشت نہیں حکومت کی جانب سے اس کی کوئی توجیہہ بھی پیش کرنے کی ابھی تک زحمت نہیں کی گئی اور نہ ہی احتجاج پر کوئی جواب دیا گیا ہے اس طرح کا اقدام حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت میں ا ضافہ اور دور یاں بڑھانے کا سبب ثابت ہوگا جس کا عوامی اور سیاسی طور پر خمیازہ بھگتنا پڑے گا جس سے قطع نظرآخر حکومت عوام پر کب تک بوجھ بڑھاتی رہے گی اور حکومت کب اس قابل ہو گی کہ عوام پر بوجھ میں اضافہ کئے بغیر اپنے مالیاتی مسائل و معاملات حل کرنے کے قابل ہو گی اب تک کے اقدامات سے حکومت کی ناکامی واضح ہے جس کا جائزہ لینے اور بہتری کی طرف قدم اٹھانے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے حکومت عوام کو اگر ریلیف نہیں دے سکتی توان کے بوجھ میں اضافہ بھی نہ کرے ستم بالائے ستم یہ کہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو اس کے اثرات عوام تک نہیں آتے اور جب اضافہ ہوتا ہے تومہنگائی کی نئی لہر چل پڑتی ہے جب تک یہ صورتحال رہے گی اور عوام کو حکومت سے خیر کی توقع نہ ہو گی عوامی بے چینی میں اضافہ ہی ہو گا جوحکومت کے لئے ہرگز نیک شگون نہیں۔
دھوکہ دہی کی روک تھام کی ضرورت
اخباری اطلاعات کے مطابق ایمازون کی جانب سے پاکستان کے 13000اکائونٹس معطل کر دیئے گئے ہیں ایمازون کی جانب سے 13000 سے زیادہ پاکستانی اکائونٹس کو بند کر دیا گیا ایمازون نے پنجاب کے شہروں میاں چنوں اور ساہیوال کو فراڈ ریڈ زون قرار دیا ہے ان علاقوں سے کام کرنے والے سیلزر دھوکا دہی کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں ایمازون نے میاں چنوں کے آئی پی ایڈریسزبھی بلاک کر دیئے ہیں ان علاقوں کے لوگ دبئی سے یا دوسرے کلائنٹس کے کمپیوٹرز کے ذریعے اکائونٹس چلا رہے ہیں۔اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی کہ دنیا میں جہاں با آسانی وباسہولت کاروبار وروزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے خود ملک کے لاکھوں نوجوان اس سے وابستہ باعزت روزگار کے ذرائع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ان چند عاقبت نااندیش افراد کی وجہ سے ان پر بھی کاروبار وروزگار کے دروازے بند کرنے کی نوبت آنے کا خطرہ ہے یہ بددیانتی ہی ہے جس کے باعث آج دنیا میں پاکستانی مصنوعات اور کارکنوں کی وقعت تنزل کا شکار ہے۔فراڈ کا یہ سلسلہ نہ رکا توپاکستان میں فری لانس کے مواقع خدانخواستہ ہاتھ سے نکل جائے گا اس دھوکہ دہی کی روک تھام اور اس میں ملوث افراد کا کسی طرح سے کھوج لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے حکومت کو اس ضمن میں جلد سے جلد کوئی ٹھوس پالیسی وضع کرنے اور اس شعبے میں کسی طرح سے نگرانی کا عمل متعارف کرانے پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ فراڈ اور دھوکہ دہی کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے آن لائن اشیاء کے غیر معیاری اور نمونے کے مطابق نہ ملنے پر ارسال کنندہ کے خلاف کارروائی اوران پر جرمانہ عائد کرنا چاہئے تاکہ صاف ستھرے کاروبار کرنے والے افراد متاثر نہ ہوں اور اس شعبہ پر عوام کا اعتماد قائم ہو۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''