شفافیت کے وعدے اور الزامات کی بارش

الزامات کی بارش سے بنے ماحول میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تسلی دے رہے ہیں کہ سیلاب متاثرین کیلئے آنے والی بیرونی امداد کی تقسیم و ترسیل میں شفافیت کو ہرممکن طریقے سے یقینی بنایا جائے گا۔ امدادی رقوم کی ایک ایک پائی کا حساب ہوگا۔ ملکی کمپنیوں سے آڈٹ کے علاوہ معروف بین الاقوامی فرم سے بھی آڈٹ کروایا جائے گا۔ انہوں نے سیلاب متاثرین کی امداد میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ”ڈیجیٹل فلڈ ڈیشن بورڈ”کے قیام کا بھی بتایا۔ گزشتہ روز مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے تاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے 70ارب روپے دیئے ہیں مزید50ارب روپے بھی فراہم کئے جائیں گے۔ سیلاب متاثرین کے جملہ معاملات کی دیکھ بھال کے لئے ڈیجیٹل فلڈ ڈیشن بورڈ کا قیام اچھا فیصلہ ہے اس طرح مالی امداد کے دوہرے آڈٹ کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے البتہ حکومت کو یہ حقیقت بہرطور سمجھنا ہوگی کہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے 120 ارب روپے کی رقم ناکافی ہے۔ پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دورہ پاکستان کے موقع پر سیلاب سے ہوئی تباہ کاریوں اور دوسرے جن مسائل پر بات کی انہیں بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ بیرونی امداد کا لوکل اور بین الاقوامی آڈٹ فرم سے آڈٹ کرانے کا فیصلہ بھی بجا طور پر درست ہے کیونکہ ہمارے ہاں محض مخالفت برائے مخالفت میں الزام تراشی کا طوفان اٹھانے والے کبھی نچلے نہیں بیٹھتے۔ حالیہ سیلاب کے متاثرین کے لئے جاری امدادی کاموں اور امداد کی تقسیم میں یقینا کوتاہیاں ہوئی ہوں گی مگر جس طرح برطانوی امداد کے پاکستان پہنچنے سے دو دن قبل ہی امدادی سامان کی دکانوں پر فروخت کے حوالے سے جعلی تصاویر لگاکر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا طوفان اٹھایا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ستم بالائے ستم یہ کہ سابق حکمران جماعت کے بعض حامیوں نے اس جعلی پوسٹ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ٹیگ کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ سیلاب زدگان کے لئے حکومت پاکستان کی مدد نہ کی جائے۔ سیاسی اختلافات میں نفرت کے در آنے کے نتیجے میں ہمارے یہاں ہر شخص اپنی پسندیدہ جماعت اور قیادت کو نجات دہندہ اور دیگر کو چور اور غدار قرار دیتے نہیں تھکتا گزشتہ دنوں جس جعلی تصویر کی بنیاد پر وفاقی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا اور جس طرح ملکی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر متاثر کرنے کی گھٹیا مہم چلائی گئی اس پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل کے ذمہ داران کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتاہے کہ ہمارے ہاں حب الوطنی اور دیانت کا معیار وہی ہے جو ہمیں ”پسند”ہو۔ امید کی جانی چاہیے کہ وفاقی وزارت داخلہ نہ صرف اس صورتحال کا فوری طورپر نوٹس لے گی بلکہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے والے عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کو بھی یقینی بنائے گی۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ازبس ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کے لئے دی جانے والی امداد متاثرین کی من پسند شخصیات کے ڈیروں اور حجروں پر پہنچانے کی شکایات بہرطور سامنے آئی ہیں۔ خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب(سرائیکی وسیب ) اور سندھ میں اس حوالے سے جو شکایات سامنے آئیں تینوں صوبوں کی حکومتوں کا فرض ہے کہ نہ صرف ان کی تحقیقات کرائے بلکہ شکایات درست ہوں تو متعلقہ سیاسی شخصیات اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف کسی تاخیر کے بغیر کارروائی کریں۔ اسی طرح سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے متاثرین کے اس اہم مسئلہ کو بھی چاروں صوبائی حکومتیں بطور خاص مدنظر رکھیں کہ اگلے ماہ موسم کی تبدیلی شروع ہوجائے گی متاثرہ علاقوں میں پانی خشک ہونے میں تین چار ماہ لگ سکتے ہیں اس صورت میں متاثرین کو موسمی سختیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کی توجہ باردیگر اس امر کی جانب دلانا ضروری ہے کہ سیلاب سے صرف صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے وا لے اضلاع میں تین ساڑھے تین سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ صوبائی حکومت نے ابتدائی طور پر متاثرین کے لئے5ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ گو متعدد دلکش اعلانات بھی کئے لیکن ان پر عمل کب ہوگا، اس کا اندازہ پنجاب حکومت کی فوری دلچسپی کے معاملات سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبائی خزانہ سے نئی قیمتی گاڑیاں خریدنے کی منظوری اور وزیراعلی ہائوس کے لئے ماہانہ بنیادوں پر تیتر، دیسی مرغ اور چھوٹے گوشت کی خریداری کے ٹینڈرز کی منظوری کی دو مثالیں یہ باور کرانے کے لئے کافی ہیں کہ صوبائی حکومت کی مصروفیات، ضرورتیں اور ترجیحات کیا ہیں۔ سندھ کے سیلاب متاثرین ہوں یا خیبر پختونخوا کے، وہ بھی شکایات کررہے ہیں ان کی شکایات کے ازالے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ امید واثق ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گی۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دوسرے صوبوں کے دوردراز کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی شکایات اپنی جگہ، خود پنجاب حکومت ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ اور ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان اور فاضل پور کے دوردراز علاقوں تک امداد پہنچانے میں ناکام رہی۔ مقامی نوجوانوں نے مخیر حضرات کے تعاون سے اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی بساط کے مطابق مدد نہ کی ہوتی تو سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین بدترین المیے سے دوچار ہوسکتے تھے۔ مندرجہ بالا معروضات کا مقصد صرف یہی ہے کہ ارباب حکومت کو چاہیے کہ دوردراز کے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے فوری حکمت عملی وضع کریں ثانیا یہ کہ اس امر پر بھی غور کیا جائے کہ اکتوبر میں موسم تبدیل ہونا شروع ہوگا تو ان متاثرین کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ محفوظ علاقوں کے شہری بھی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اپنا اپنا فرض ادا کرنے میں تساہل نہیں برتیں گے۔ یہ بھی عرض کردوں کے موجودہ حالات میں جس قومی اتحاد کی ضرورت ہے وہ قائم ہوتا دکھائی نہیں دیتا اس کی وجہ سیاسی اختلافات میں نفرتوں کا در آنا ہے افسوس کے اس صورتحال کے ذمہ داروں کے ڈر سے کوئی شخص بات نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام