خیبر پختون خوا پولیس کی قربانیاں

صوبے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں خیبر پختون خوا پولیس پر فرض کی بجا آوری اور صوبے میں قیام امن کے حوالے سے ایک بارپھر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے علاوہ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، صوابی، چارسدہ، پشاور اور سوات میں پولیس گاڑیوں اور چوکیوں کو قانون شکن عناصر کی جانب سے جس تیزی اور بے دردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے متعلقہ حلقوں کو نہ صرف اس کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے بلکہ اس سے پہلے کہ پانی ایک بار پھر سر سے گزر جائے اس حوالے سے کوئی مضبوط بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ خیبر پختون خوا پولیس نے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران فرض کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے 1850ء سے زائد اہلکاروں کی قربانی دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان قربانیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کے جان ومال اور خاص کر ان کے اہل وعیال کے تحفظ کے لیے کوئی لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جائے گا یا پھر ان کی ان بے تحاشا قربانیوں کی واہ واہ پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خیبر پختون خوا پولیس کا شمار دنیا کی ان چند بہادر پولیس فورسز میں ہوتا جو عالمی سطح پر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا چکی ہیں۔۔ ٹیکنالوجی، اعلیٰ ٹرینڈ افرادی قوت، گولہ بارود، ہائی ٹیک گاڑیوں اور جدید کمیونیکیشن سسٹم کی کمی کے باوجود ہماری پولیس نے امن کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دے کر جو قابل تحسین کارنامے انجام دیے ہیں وہ ہماری اس بہادر فورس کا ہی نشان ِ افتخار ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختون خوا پولیس کی ان بے پناہ قربانیوں کے باعث اب نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ ملک بھر میں بھی ہر سال4اگست کو پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اس کی قربانیوںکو خراج تحسین پیش کرنے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز قرآن خوانی اور شہداء کی روح کے ایصال ثواب کے ساتھ ساتھ ملک و دنیا میں امن کے لیے فاتحہ خوانی سے کیا جاتا ہے۔ اس دن ان تمام افسروں اور جوانوں کی قبروں پر سلامی پیش کی جاتی ہے جو دوران ِڈیوٹی شہید ہوئے تھے۔اس دن کے سلسلے میں تمام اضلاع میں بلڈ ڈونیشن کیمپس اور سیمینارز ومذاکروں کے انعقاد کے علاوہ واک اور ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں۔ جب کہ اس روز شہید اہلکاروںکو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صوبے کے مختلف حصوں بالخصوص تھانوں اور پولیس لائنز میں ان شہدا کی قد آدم تصویر بھی آویزاں کی جاتی ہیں۔
اگرچہ 1970 ء سے اب تک مختلف قسم کے حملوں اور مقابلوں میں مجموعی طور پر 1,849 پولیس اہلکار شہید ہوئے، ان میں سے زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد سے گزشتہ 15 سال میں مارے گئے۔ 1970 ء سے 2006 ء تک 389 پولیس اہلکار شہید ہوئے لیکن 2007 ء سے لے کر جولائی 2022 ء کے وسط تک کے پی میں 1480 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان میں پچھلے 15 سال میں 1072 کانسٹیبل تھے۔ پچھلے 15 سال کے دوران خیبرپختونخوا پولیس کے شہید ہونے والے ہیروز میں کچھ اعلیٰ افسران جیسے ایڈیشنل انسپکٹر جنرلز صفوت غیور اور اشرف نور، ڈی آئی جی ملک سعداور عابد علی، چھ ایس ایس پیز/ایس پیز اور 15 ڈی ایس پیز/قائم مقام ایس پیز شامل ہیں۔ 2007 ئ سے اب تک 32 انسپکٹرز، 109 سب انسپکٹرز، 88اے ایس آئیز، 155 ہیڈ کانسٹیبلز اور 1072 کانسٹیبلوں نے مختلف حملوں میں ملک اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی قیمتی جانیں نچھاورکیں۔کے پی پولیس ریکارڈ کے مطابق 2007 ء میں 107 پولیس اہلکار، 2008 ء میں 172، 2009 ء میں 209، 2010 ء میں 107 اور 2011 ء میں 154، 2012 ء میں 106، 2013 ء میں 134، 2014 ء میں 1142،2015 ء میں 61 پولیس اہلکار، 2016 ء میں 74، 2017 ء میں 36، 2018 ء میں 30، 2019 ء میں 38، 2020 ء میں 28 اور 2021 ء میں 59 پولیس اہلکار مختلف حملوں کا شکار ہوئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 2021 ئکے آخر میں حملوں میں اضافہ شروع ہوا۔ رواں سال کے دوران پولیس پر حملوں میں اب تک 63 ء اہلکار جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پولیس کی ان لازوال قربانیوں کے بیچوں بیچ جب کبھی کبھار ہمیں ایسی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً جن میں کہا جاتا ہے کہ پشاور میں اشتہاری اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ مبینہ روابط کے الزامات یاکرپشن کے مختلف کیسز میںکئی پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میںبعض مزید افسران واہلکاروں کے خلاف بھی کارروائیاں کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تو اس سے اگر ایک طرف پولیس کے فرض شناس اور ایماندار اہلکاروں کی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں تو دوسری جانب ان خبروں اور اطلاعات پر ان پولیس اہلکاروں کی روحیں بھی تڑپتی ہوں گی جو فرض کی پکار پرلبیک کہتے ہوئے اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کرچکے ہیں۔ لہذا توقع ہے کہ پولیس کے اندر جزا اور سزا کے عمل کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ایسی کالی بھیڑوں سے جوپولیس کے دامن پرکلنک کا ٹیکہ ہیں اس قابل فخر فورس کو نجات دلائی جائے گی جس کا طرہ امتیاز بہادری اور فرض شناسی ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی