سیاسی استحکام پاکستان کیلئے واحد آپشن

سیاسی استحکام صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس وقت بنیادی موضوع ہے، برطانیہ کی سابق وزیراعظم لز ٹرس کا اقتدار صرف 45 دن برقرار رہا، وہ ٹیکسوںمیں کمی اور معیشت کی ترقی کے لئے ایک جرات مندانہ منصوبہ پیش کرنا چاہتی تھیں، مگر ہواؤں کو للکار کر انہوں نے اپنے لئے ایسا طوفان کھڑا کیا کہ انہیں جلد ہی استعفیٰ دینا پڑگیا، یوں ملک میں پہلی ایشیائی نژاد برطانوی باشندے رشی سونک کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی، یہ ایک تاریخی لمحہ ہے کہ برطانیہ میں سات ہفتوں میں تین وزرائے اعظم بدلے، اس صورت حال نے ٹوری پارٹی میں ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ مجموعی معاشی افراتفری بھی پیدا کردی ہے، رشی سونک ایک ایسے سیاست دان کے طور پر اقتدارکی راہداری میں داخل ہوئے ہیں جس کے پاس ملک کے مالی معاملات کو چلانے اور معاشی استحکام پیدا کرنے کی آزمودہ قابلیت اور وسیع تجربہ ہے، شاید اسی وجہ سے ہی وزیراعظم کے عہدے کے لئے رشی سونک کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران عالمی سیاسی منظر نامے نے جارحانہ طرز عمل اور دلچسپ انداز کی حامل ایسی قیادت پیدا کی ہے جو بظاہر اس تاثر کے تحت کوشاں ہے کہ وہ اخلاقیات اور اتحاد کے لیے لڑ رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس انہوں نے تقسیم اور انتشار ہی پیدا کیا ہے، دراصل جرات مند ہونے اور بے دھڑک ہونے کے درمیان ایک لکیر ہے، قومیں اس وقت لاپرواہی اور تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتیں، اس وقت تمام سیاستدانوں کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہے کیونکہ جس طرح سے عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم سب کی بھلائی کے لیے متحد ہو جائیں، یہی وجہ ہے کہ سیاسی افراتفری کے دوران برطانیہ کے لوگوں نے بالآخر یہ محسوس کیا کہ انہیں ایک ایسے لیڈر کے ضرورت ہے جسے معیشت اور مالیاتی امور چلانے کی وسیع تر سمجھ بوجھ ہو، اگرچہ رشی سونک نے ابھی برطانیہ کو درپیش بے شمار چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے، لیکن ان کا انتخاب صحیح وجوہات اور تقاضوںکی بناد پر کیا گیا ہے،ذمہ داری کے ساتھ مالیات کو چلانا اور معاشی بحالی ہی آج کے حالات کا تقاضا ہے۔
آج کے حالات میں پاکستان کے لئے بھی ایسی ہی حکمت عملی اختیار کرنا اور صرف معیشت کی بہتری پر توجہ دینا بہتر ہوگا، ورلڈ بینک کے مطابق جون 2023 ء کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت میں صرف دو فیصد ترقی متوقع ہے، پاکستان درآمد شدہ خوراک اور توانائی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، گزشتہ ایک سال میں ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں نصف سے زیادہ کمی آئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر میں تاریخی کمی آئی ہے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان کی زرعی پیداوار کو متاثر کیا ہے، جو بدقسمتی سے پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی توکوشش کی جا سکتی ہے۔
سیاسی محاذ آرائی ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے، سیاست دان اس مرحلے پر رکاوٹوں کے متحمل نہیں ہوسکتے، مثال کے طور پر جس انداز میں ایک سابق وزیراعظم کا نااہل کیا گیا اس سے صرف مزید افراتفری ہی پھیلے گی، پاکستان کو چار سال کے بعد حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالا گیا ہے، ملک کو اس لسٹ سے نکالنے کے لئے گزشتہ حکومتوں اور سکیورٹی ایجنسیوں نے مؤثر اصلاحات پرمبنی اقدامات کئے، یہ ہرگز کوئی آسان ہدف نہیں تھا، گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات دراصل سب کے لئے ایک اہم سبق ہے کہ مشکل حالات میں بھی ملکی قیادت ایک ساتھ مل بیٹھ سکتی ہے اور اہم فیصلے کر سکتی ہے، پاکستان اور ایسے دوسرے ملکوں، جو معاشی مسائل سے نبرد آزما ہیں، ان کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ جمود کو توڑیں اور آگے بڑھیں، بلاشبہ ہمیں ایسی سیاست کی بہت زیادہ بھوک ہے جو تنازعات اور اسکینڈلز سے بھری ہوئی ہے، لیکن اگر ہم مسلسل اسی روش کوجاری رکھتے ہیں تو معیشت اور انسانی حالات مزید ابتر ہی ہوں گے، ذرائع ابلاغ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ پاکستان کو اس وقت درپیش سنگین معاشی چیلنجوں کو اجاگر کرے تاکہ یہ ادراک ہو کہ ہمارے لئے صورت حال کتنی سنگین ہے؟ پاکستان کو اس وقت صرف ایک جنگ کے بارے میں سوچنا چاہیے وہ استحکام کی جنگ، سیاسی محاذآرائی اور لانگ مارچز کی گنجائش نہیں بلکہ معیشت کا مضبوط بنانا اور سیاسی استحکام پیدا کرنا ہی ہمارے لئے واحد آپشن ہے ۔
(بشکریہ ، دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے