جس نے رکھنا ہو ہمیں دل کے صحیفے میں رکھے

یک درویش کے ساتھ اس مختصر مکالمے میں سوچ کا ایک سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے کہ جب اس سے کسی نے پوچھا کہ شعور اور شور میں کیا فرق ہے ؟تو درویش نے کہا’ صرف حرف عین کے اضافے کا ‘ سائل نے پوچھا عین(ع) کے اضافے سے کیا مراد ہے آپ کی؟ جواب آیا(ع) سے مراد ہے ‘ علم ‘ عمل اور عقل ‘ اگر ان حوالوں سے بات کرو گے تو شعور کہلائے گا ورنہ صرف شور کہلائے گا ‘ گویا بقول شخصے آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ۔ انگریزی کے ایک ناول ڈیتھ آف اے سیلز مین (ایک ملاح کی موت) میںایک مقام پر ناول نگار آرتھر ملر ‘ ناول کے دو کرداروں باپ بیٹا کے درمیان ایک مکالمے کے ذریعے اس صورتحال کو دوسرے ا لفاظ میں یوں واضح کرتا ہے کہ نوجوان ہیپی لومین اپنے باپ سے کہتا ہے ۔”میرے ارد گرد اس قدر دھوکہ اور فریب دکھائی دے رہا ہے کہ میں مسلسل اپنے آئیڈیلز کو کم وقعت کرنے پرمجبور ہو رہا ہوں ‘ ایک پاکستانی(دانشور وجاہت مسعود کے مطابق ”مشکل یہ ہے کہ آدرش کی لو نیچی رکھنے سے اندھیرا دور نہیں ہوتا”۔ اس وقت ہم شعور اور شور کے درمیان فکری مغالطوں کی ایک ایسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں جہاں ہر جانب دھندلکوں کی حکمرانی ہے ‘ استاد محترم مرحوم پروفیسر عابد علی عابد نے کیا خوب کہا تھا۔
نہ دھند لکوں میں ملیں ہم ‘ نہ اجالوں می ملیں
ہم ملیں بھی تو انہیں خواب کے ہالوں میں ملیں
جس نے رکھنا ہو ہمیں دل کے صحیفے میں رکھے
ہم وہ شاعر نہیں عابد جو رسالوں میں ملیں
سیاسی افراتفری کی جس جنگ زرگری نے ہمیں گھیر رکھا ہے اس میں اصل اور نقل کی تمیز کے لئے جس ژرف نگاہی کی ضرورت ہے اس سے ہم من حیث القوم عاری ہیں ‘ یعنی بقول مرزا غالب
ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
سیاسی مقاصد کے حصول میں ہڑبولیاں اور پھر مراجعت کے کھیل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کی دھمکیاں ‘ ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا ‘ ان سے نمٹتے ہوئے تحلیل اسمبلیوں کو روکنے کی جوابی حکمت عملی کی کوکھ سے جھوٹے سچے دعوئوں کی کشیدکی ذمہ داری عوام پرڈالنے کی کوششیں کیا رنگ لائیں گی یہ ایک ایسا سوال ہے جس پرایک بار پھر متضاد دعوے کئے جا سکتے ہیں ۔ صورتحال اس شعر کی مانند ہے کہ
وہ جنگ اپنی انائوں کی لڑ رہے تھے ‘ مگر
لہو لہان ہوا شہر ان کے جھگڑوں میں
دعویٰ مسیحائی کا یہ سامنے آیا کہ اسمبلیوں سے باہر نکلا جائے گا ‘ سیاسی نکتہ دانوں نے اس اعلان کو دو دو معانی پہنائے ‘ کوئی اسمبلیوں کی تحلیل اور کوئی صرف ممبران کے مستعفی ہونے سے اس کو واضح کرنے لگے ‘ اڑچھن مگر درمیان میں یہ آپڑی کہ کم از کم پنجاب کی حد تک اسمبلی کی تحلیل پر سوال اٹھنے لگے ‘ جوابی حکمت عملی اسمبلی کی تحلیل کے لئے گورنر راج یا پھر تحریک عدم اعتماد کی صورت سامنے آیا ‘ عدم اعتماد بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف نہیں بلکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف ‘ چوہدری پرویز الٰہی نے جوابی وار کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد یا گورنر راج کو خواب قرار دیا ‘ گویا وہ خوابوں کے سوداگر بن کر میدان میں آ گئے ‘ ادھر تحریک انصاف کے گزشتہ روز کے اجلاس میں(اعلان کی حد تک)دواسمبلیوں سے باہر آنے یا تحلیل کرنے کے لئے آئندہ جمعہ اور ہفتے کا دن مقرر کرکے حتمی فیصلے کی بات تو ضرور کی گئی جبکہ اجلاس کی اندرونی کہانی کچھ اور بات سناتی ہے ‘ اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس قسم کے اعلانات صرف سیاسی بلیک میلنگ ہے اس کے سوا کچھ نہیں ‘ اور اس حوالے سے تازہ اطلاع سابق سپیکر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر کے تازہ بیان میں سامنے آئی ہے جنہوں نے عقل و خرد سے گندھی ہوئی بات کی ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے معاملے پر جذباتی فیصلہ نہیں ہو گا ‘ اسد قیصر اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی کے ہارڈ لائنروں کی جانب سے پارٹی سربراہ کو جس راستے پر دھکیلا جارہا ہے اس کے نتائج پارٹی کے حق میں اچھے ہوں گے نہ پارٹی سربراہ کے ‘ مگر جیسا کہ ماضی میں سیاسی میدان میں ایک بلند بانگ دعویٰ راج کرتا ہوا نظرآتا تھا کہ ”قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں”۔ اس کا انجام اس ملک کی سیاست نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا یعنی
دیکھا جوکھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اس کے بعد میاں صاحب کے ساتھ کیا بیتی یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ‘ اس لئے اگر بدلتے حالات کے تناظرمیں”عزت سادات” بچانا مقصود ہو تو اسد قیصر کی بات قابل توجہ ہونی چاہئے ‘ تاہم بعض سیاسی تجزیہ کار اس حوالے سے ایک اور بات کی نشاندہی کر رہے ہیں یعنی بظاہر(پارٹی کے یوٹرن پالیسی) کے تحت ان بیانات کو بھی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے یوں تعبیر کر رہے ہیں کہ ان کا مقصد حکمت عملی کو روکنا ہے بہرحال وہ جو سیانے کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کے اندر بھی”سادے مرادے” نہیں بیٹھے بلکہ گھاگ اور گرگ باراں دیدہ رہنما موجود ہیں جوان جھوٹی تسلیوں کے جال میں پھنسنے کی غلطی نہیں کرسکتے اور وہ جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلائو ‘جائو ‘ کہہ کر ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ جن پر”دھوبی پٹڑہ”کی پہلوانی اصطلاح کا اطلاق آسانی سے کیا جاسکے گا ‘ ویسے بھی الیکشن کمیشن کے دو ٹوک اعلان کے بعد کہ اگر دو صوبائی اسمبلیوں تحلیل کی جائیں گی تو انہی حلقوں میں ضمنی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے’ اس کے بعد جمعہ اور ہفتہ کیا خبریں لائیں گی اس پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
گوالا لاکھ کھائے جائے قسمیں
مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے