میں اپنے شوق شہادت میں ماراجائوں گا

پشتوزبان کا ایک مقولہ ہے کہ جس بلا (عفریت) سے سامنا کرنے میں ابھی پوری رات پڑی ہو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے’ بلکہ ایک اورمقولہ بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس بلا سے جان نہیں چھوٹتی اسے گلے مل لو’ اس لئے یہ جومسئلہ مقطع میں سخن گسترانہ بات کی طرح آدھمکا ہے یعنی اسمبلیوں کی تحلیل پرسوال اور جواب چل رہے ہیں ‘ اگرچہ تحریک انصاف کے لئے اب یہ ایک اردو محاورے کے مطابق کمبل بن چکا ہے اور اسمبلیاں توڑنے کے لئے بیس دسمبر تک کی مہلت خود ہی حاصل کرلی گئی ہے تو تب تک پشتو محاورے کے مطابق ایک رات نہیں بلکہ دم تحریر 17 راتیں پڑی ہیں اس لئے تحریک انصاف کے بعض اسمبلی ممبران جس ذہنی کشمکش سے دوچارنظر آرہے ہیں انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ لمبی تان کرسو جائیں ‘ اسمبلیوں کو کچھ نہیں ہونے والا ‘ یعنی یہ جودھمکیاں ‘ تڑیاں اور جوابی دھمکیوں کی ہلا شیری چل رہی ہے یہ پیالی میں طوفان سے زیادہ کی اہمیت رکھتی ہی نہیں ہیں ‘ ادھرمولانا فضل الرحمان نے جوبیان دیا ہے وہ ویسے یہ ہے جیسے بچپن میں بچوں کو شرارت سے باز رکھنے کے لئے اکثر بڑے”بائو” کہہ کر ڈراتے ہیں ‘ انہوں نے کہا ہے کہ بڑھکیں بہت سنی ہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا اور یہ کہ اسمبلیوں کی مدت میں ایک سال تک کا اضافہ بھی ہوسکتا ہے ‘ مولانا صاحب کا مقصد قومی اسمبلی کی مدت سے ہے اور آئینی ماہرین کے مطابق اس بات کی گنجائش ہے کہ ضرورت پڑنے پر حکومت موجودہ اسمبلی۔(قومی) کی مدت میں اضافہ کرسکتی ہے ‘ اس مقصد کے لئے آئین اجازت دیتا ہے ‘ ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ وہ بظاہر تو پنجاب حکومت کو عمران خان کی امانت قرار دے کر یہ بیانات دے رہے ہیں کہ خان صاحب جب بھی کہیں گے پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی’ جبکہ ایک اور خبر کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے پارٹی کے اندر ”مبینہ بغاوت”کی سی صورتحال ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کو پنجاب اسمبلی توڑنے سے مشروط کیا جارہا ہے ‘ اب پنجاب اسمبلی توڑنے پر بیانات کے علی الرغم پرویز الٰہی نے عمران خان کے ساتھ ملا قانون سے گریز کے بعد نہیں یہ سمجھا دیا ہے کہ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد عمران خان کے لئے حالات ”ساز گار اور موافق” نہیں رہیں گے ‘ اور یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان اپنے26نومبر کے اعلان سے ایک بار پھر”یوٹرن” لینے پر بظاہر مجبور نظر آرہے ہیں اور حکومت کو مذاکرات پرآمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بقول ایک تجزیہ کار(وی لاگر) چوہدری خاندان نے عمران خان کو مذاکرات کی”بھیک” مانگنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ اس صورتحال تک خان صاحب کو پہنچانے میں پارٹی کے ہارڈ لائنروں کا ہاتھ ہے جنہوں نے انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بیان تک پہنچایا’ گویا صورتحال ماضی کے لیگ نون والی ہے جس کا مشہور نعرہ تھا”نوازشریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں” بالکل وہی صورتحال اس وقت عمران خان کے لئے بن چکی ہے یعنی بقول رانا سعید دوشی
میں ورغلا یا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوق شہادت میں مارا جائوں گا
چوہدری خاندان نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے جو صورتحال پیدا کردی ہے دراصل وہ بھی ”سیاسی بلیک میلنگ” ہی کی ایک شکل ہے ‘ اور اب تو یہ بات بھی کھل چکی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ سودا طے ہونے کے باوجود اچانک پرویز الٰہی نے بنی گالہ کارخ کرکے پانسہ کیوں پلٹ دیا تھا ‘ اور اب ایک بار پھر سابق آرمی چیف اور جنرل فیض کی آشیرباد پرسوال اٹھ رہے ہیں کہ یہ انکشاف خود چوہدری مونس الٰہی نے کرکے بقول شاعر کر دیا بے نقاب چہروں کو ‘ مگر اب جو چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے نیمے دروں نیمے بیروں والی کیفیت پیدا کرکے کنی کترا رہے ہیں یعنی
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں ‘ سامنے آتے بھی نہیں
تو واقفان حال کے مطابق دراصل وہ اگلے سیٹ اپ میں اپنی جماعت کے لئے کچھ ”ضمانتیں” نہ صرف مانگ رہے ہیں بلکہ تحریری طور پر تحریک انصاف کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر وہ موجودہ صورتحال میں اسمبلی بغیر کسی”وعدے و عید ” کے توڑ دیتے ہیں توان کو کتنے نفلوں کا ثواب مل سکتا ہے’ پھر جن مراعات کو نہ صرف وہ خود انجوائے کر رہے ہیں بلکہ اسی پنجاب حکومت کے طفیل عمران خان بھی ہر طرح سے محفوظ و مامون ہیں’ اسمبلی تحلیل ہوتے ہی یہ سب کچھ خواب و خیال بن کر رہ جائے ‘ اب صورتحال اس پنیر کے ٹکڑے کی ہے جو جب تک محفوظ ہے تو کام چل رہا ہے اور اگر اسے ”بندربانٹ” کے لئے ترازو میں رکھ دیا گیا تو ان میں سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آنا ‘ بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھ توقطعاً خالی رہیں گے کہ اگلے سیٹ اپ میں کون اسے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بٹھانے کو تیار ہوسکتا ہے یہاں تک کہ تحریک انصاف بھی ایسا کرنے کوتیار نہیں ہو گی اس لئے چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی کی تحلیل کوتیارہی نہیں ہو رہے اور کسی نہ کسی طور بقیہ مدت پوری کرنے پرتلے ہوئے ہیں ‘ گویا عمران خان اس وقت اپنے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بیانئے کی گرفت میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں گویا بقول ایوب خاور
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کونسے دھاگے کوجدا کس سے کریں
صورتحال اب اس نہج پر جا پہنچی ہے کہ وہ شخص جواپنے اقتدار کے زعم میں”چوروں ‘ ڈاکوئوں” سے ہاتھ ملانا تو درکنار ‘ بات کرنے کوبھی تیار نہیں تھا اور بات بات پرالزام دھرتا تھا کہ یہ مجھ سے این آر او مانگ رہے ہیں ‘ اب وہی شخص کہہ رہا ہے حکومت ہمارے ساتھ بات کرے ‘ الیکشن کی تاریخ دے ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے ۔ یعنی
اس بے سبب گریز سے بڑھ جائے گی طلب
آبیٹھ میرے پاس ‘ میرا مسئلہ سمجھ
تاہم لگتا ہے کہ حکومت کی سمجھ ذرا کمزور ہے اور وہ ابن انشاء کویاد کر رہی ہے
آنکھیں موند کنارے بیٹھو ‘ من کے رکھ بند کواڑ
انشاء جی ‘ لودھاگا لو اور لب سی تو خاموش رہو

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟