چین میں احتجاج کی لہریں

ہمارے پہلو میں عوامی جمہوریہ چین میں حکومت کی زیر و کوویڈ پالیسی کے خلاف ردعمل میں ایک احتجاج پھوٹ پڑا ہے جو چین کی حکومت اور انتظامیہ کے لئے شدید مشکلات کا باعث بنتا جا رہا ہے۔یہ مظاہرے کئی بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں۔ ان مظاہروں کو غیر معمولی نوعیت کا دیا جا رہا ہے۔ان مظاہروں کو چینی صدر شی چن پنگ کی پالیسیوں کے خلاف ردعمل قرار دیا جا رہا ہے ۔شی چن پنگ کچھ ہی روز قبل نئی میعاد کے لئے صدر منتخب ہو چکے ہیں ۔اس عرصے میں صدر شی چن پنگ کے حوالے سے کئی متضاد خبریں آتی رہیں جن میں ان کی نظر بندی کی افواہیں بھی شامل ہیں ۔ مغربی ذرائع ابلاغ چین میں ان خبروں اور افواہوں کو ہوا دیتے رہے۔ان خبروں کی تردید کے لئے صدر شی چن پنگ کو کئی روز بعد منظر عام پر آنا پڑا۔اس کے بعد کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوںنے احتجاجی مظاہروں کے لئے ایندھن کا کام دیا ۔ حکومت مخالف کئی مظاہروں میں صدر شی اور کمونسٹ پارٹی سے اقتدار سے الگ ہونے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ۔اس وقت بیجنگ ،شنگھائی اور ووہان جیسے بڑے شہروں میں عوام کا احتجاج زوروں پر ہے ۔یہ چینی حکومت کو گزشتہ ایک دہائی میں پیش آنے والا سب سے بڑا احتجاج ہے ۔ماضی میں جب سوویت یونین کا انہدام ہورہا تھا تو مشرقی یورپ میں ہونے والا احتجاج چین کی حدود میں بھی داخل ہوگیا تھا اور یوں چینی حکومت کو مظاہرین کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے محابا استعمال کرنا پڑا تھا۔حکومت نے بیجنگ کے ریڈ سکوائر میں نوجوانوں پر ٹینک چڑھا دئیے تھے۔ اس وقت بھی کہا جا رہا تھا کہ علاقے میں پیدا ہونے والے حالات کی طرح چینی مظاہرین کو بھی مغربی ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس بار تو چینی حکام نے ایسا کوئی الزام عائد نہیں کیا مگر امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک چین میں مظاہرین کی حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ چین نے اس رویے کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔چین کی حکومت تاحال ان مظاہروں کو کنٹرول نہیں کر سکی ۔یونیورسٹیوں کی انتظامیہ طلبہ کو گھروں کو بھیج کر مظاہروں کی شدت کم کرنا چاہتی ہیں اور حکومت گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کے روایتی طریقوں کا استعمال کر رہی ہے۔چین میں کوویڈ ایک بار پھر زوروں پر ہے اور صدر شی چن پنگ نے کووویڈ کی روک تھام کے لئے سخت پالیسی اپنا رکھی ہے ۔اس کے لئے لاک ڈائون سے کام لیا جا رہا ہے اور مسلسل لاک ڈائون سے لوگوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔چین میں پہلے ہی نوجوانوں میں بے روزگاری کا گراف بڑھ رہا ہے اور لاک ڈائون سے کئی نئے معاشی مسائل جنم لے رہے ہیں بالخصوص کاروباری طبقات کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔چین میں 1949سے کمونسٹ پارٹی کی حکومت ہے اوراس پارٹی پر مظاہروں کو روکنے کے لئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا جا رہا ہے۔حالیہ احتجاج کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی آئی فون فیکٹری سے ہوا جہاں انتظامیہ نے تشدد سے کام لیا ۔ اس احتجاج کو کوویڈ کے خلاف سخت پالیسی کے دوران کئی بے تدبیریوں سے ہوا ملتی جا رہی ہے جن میں چند دن قبل سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں ایک عمارت کے اپارٹمنٹ میں آتش زدگی کا واقعہ بھی شامل ہے ۔اس واقعے میں دس افراد
ہلاک ہوئے تھے اور انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کو گھروں میں بند رکھنے کی وجہ سے جانیں نہ بچائی جا سکیں اور اس حادثے سے عوام بپھر کر سڑکوں پر نکل آئے ۔سنسر شپ کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے واقعات کی تفصیلات پھیل رہی ہیں۔عوام بھی اپنا غصہ سوشل میڈیا کیے ذریعے ظاہر کر رہے ہیں ۔ایسا ہی ایک اور واقعہ چینگڈو کے علاقے میں آنے والا زلزلہ ہے ۔اس زلزلے کے دوران لوگوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دیا گیا ۔اس دوران ساٹھ افراد ہلاک ہوئے ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ چین کوویڈ پابندیوں کے حوالے سے 2020سے باہر آنے کو تیار نہیں جبکہ دنیا نے کوویڈ پر قابو پا نے کے بعد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔چین میں جاری پابندیاں عوام کی گھٹن میں اضافہ کر رہی ہیں عوام چینی ویکسین کے غیر مؤثر ہونے کا گلہ بھی کر رہے ہیں ۔صفر کوویڈ کی پالیسی کا اثر منڈیوں پر بھی پڑا ہے ۔اس بے چینی نے احتجاج کا رنگ اختیار کر لیا ہے ۔ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور اس کی ترقی کئی عالمی اور علاقائی قوتوں کو گوار ا نہیں ۔چینی حکومت کو اس نازک صورت حال کا مقابلہ حکمت اور تدبر سے کرنا چاہئے اور ایشیا کی صدی کے خواب کی تعبیر میں رکاوٹ ڈالنے والوں کا کام آسان بنانے سے گریز کرنا چاہئے ۔چین ایران پاکستان اور افغانستان میں ایک بے چینی اور ہیجان ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ ان ملکوں کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں