پاک افغان تعلقات ایک جائزہ

افغانستان ‘ پاکستان دنیا کے دو ایسے ملک ہیں جو 2700 کلو میٹر لمبی مشترک سرحدات کے علاوہ اسلام کے مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ہمسایہ ملکوںکے درمیان تاریخ ‘ تہذیب اور ثقافت کے ایسے دلچسپ رشتے اور بندھن ہیں جو دنیا کے اور دو ملکوں کے درمیان موجود نہیں۔ ان دونوں ملکوں کی ترقی اور بقاء کا دار و مدار ایک دوسرے پر منحصر ہے’ طورخم کے مقام سے شروع ہوکر درہ خیبر جیسا تاریخ درہ دونوں ملکوں کو ملاتا ہے ۔ ان دونوں ملکوں میں آبادی کی ایک اچھی تعداد پختونوں پر مشتمل ہے ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں تاجک ‘ ازبک اور دیگر اقوام بھی رہائش پذیر ہیں لیکن وہ اپنی مادری زبانوں کے علاوہ پشتو زبان بھی بول لیتے ہیں ان دونوں اقوام کے ہیروز بھی مشترک ہیں ‘ ہندوستان پر سترہ حملے کرنے والے محمود غزنوی سے لے کر پانی پت کے میدانوں میں فتح کے جھنڈے لہرانے والے احمد شاہ ابدالی تک دونوں اقوام کے افراد میں یکساں مقبول اور قابل احترام ہیں۔
1979ء میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا’ تو پاکستان د نیا کا پہلا اور واحد ملک تھا ‘ جس نے افغان عوام کو روسی جارحیت سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کے لئے چمن اور طورخم پراپنے دروازے چوپٹ کھول دیئے اور تقریباً چالیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں گزشتہ چالیس برسوں سے مقیم رہ کرایک نسل کوپروان چڑھا کرجوان ہوچکی ہے ۔ پاکستان اپنے قیام کے زمانے سے لے کرآج تک افغانستان کوطور خم کے راستے ٹرانزیٹ ٹریڈ(تجارت) کی سہولت بھی فراہم کرتا رہا ہے، اگرچہ بعض معاملات میں پاکستان کو اس میں بڑے خسارے کا بھی سامنا رہا ہے ۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر تجارت کے امکانات ہیں جس سے کئی وجوہات کی بناء پر صحیح فوائد نہیں سمیٹے جاتے ۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان کو خشک میوہ جات بھیجے جاتے ہیں۔ افغانستان قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے ۔ جس میں لیتیم(Latium) اورسونا جیسی قیمتی دھاتوں کی کانیں موجود ہیں لیکن گزشتہ چالیس برسوں سے افغانستان کی سرزمین پر امن نہ ہونے کی سبب ان قیمتی ذخائر کے کماحقہ فوائد حاصل نہیں کیا جا سکے ۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں ‘آج بھی اگر افغانستان میں امن ہو جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور قیمتی دھاتوں اور معدنیات کی درآمد برآمد سے دونوں ملکوں کے عوام کی زندگیوں خوشگوار انقلاب آسکتا ہے ۔ افغانستان ‘ وسطی ایشیاء کے لئے گیٹ وے ہے ۔ اس راستے سے چین اور پاکستان سنٹرل ایشیا کے ممالک اور روس تک با آسانی پہنچ سکتے ہیںاور روس سے سستا تیل اور گیس چین اور پاکستان کی ضروریات پوری کرکے ترقی کی راہیں کھول سکتے ہیں۔ افغانستان میں امن اور ترقی سے اس پورے خطے یعنی ایشیاء میں امن کا انقلاب آسکتا ہے بلکہ اب تو دنیا کا امن افغانستان کے ساتھ منسلک ہے ۔ علامہ محمد اقبال نے قیام پاکستان سے قبل دونوں ملکوں کے عوام کو بطور نصیحت فرمایا تھا کہ
آسیایک پیکرآب وگل است
ملت افغان درآں پیکر دل است
ازفساد او فساد آسیا
ازکشاد او کشاد آسیا
(ایسا پانی مٹی کاایک وجود ہے ‘ ایشیاء کے وجود کے اندر افغان ملت دل کی مانند ہے ۔افغانستان کے فساد میں مبتلا ہونے سے ایشیاء فساد میں رہے گا اور اس کی اصلاح و امن میں ایشیاء کی اصلاح ہے)
افغانستان میں ایک دفعہ بیس برس کی طویل جنگ کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کوان سے خیر وامن کی امیدیں وابستہ ہیں ‘ اگرچہ اب طالبان کواب بھی امن وسلامتی اور معیشت کی بحالی کے سلسلے میں کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں جس کے اثرات پاکستان پربھی آتے ہیں۔ لیکن دنیا امید پرقائم ہے ہم خیبر و بھلائی کی امید رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ خیر سگالی کے تعلقات کے لئے دعا گو بھی ہیں۔ اگرچہ بعض بیرونی شرپسند عناصر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات و بدگمانیوں پرکافی گرما گرمی رہی ہے لیکن طالبان حکومت کے وزیرخارجہ امیر متقی نے بہت مناسب انداز میں بروقت پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات اور پاکستان کے احسانات کا ذکر کرکے دونوں ملکوں کے لئے دشمن کی حیثیت رکھنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ اگرچہ برادرانہ تعلقات اور دوستی و محبت میںاحسانات کا ذکر اچھا نہیں ہوتا لیکن تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ پاکستان نے 1979ء سے لے کر آج تک افغانستان کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لئے بہت دکھ اور سختیاں جھیلی ہیں۔ قیمتی جانوں کی قربانی کے علاوہ اربوں ڈالرکا خسارہ ‘ افغان جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے برداشت کیا ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دو نوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح محبت وتعاون کی راہ پر گامزن ہوں تاکہ یہاں کے عوام سکھ وراحت کا سانس لے سکیں۔
افغان باقی کہسار باقی ‘الحکم للہ ‘ المک للہ

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟