طویلے کی بلا بندر کے سر

صوبائی دارالحکومت پشاور میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی پارٹیوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عسکریت پسندی کی لہر کو صوبائی حکومت کی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کو قرار دینا صورتحال کو سیاسی عینک سے دیکھنا ہے جو مناسب نہیں۔عسکریت پسندی اوردہشت گردی کی ابتداء تحریک انصاف کے اقتدارمیں آنے سے کافی قبل کی بات ہے اور صوبے پر جوسخت حالات گزرے اسے کسی سیاسی جماعت کی پالیسیوں اور نہ ہی اس وقت کی حکومت یا حکومتوں پراس کی ذمہ داری عائد ہو سکتی ہے یہ درست ہے کہ حکومت کی افغان پالیسی اور ماضی سے لے کرحال تک جاری رہنے والے حالات اور عوامل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی صورتحال جیسے تمام امور اس ساری صورتحال کاپس منظراور کسی حد تک پیش منظر بھی ہیں جس کی روشنی میں خدانخواستہ حالات کی مزید خرابی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔عسکریت و دہشت گردی کی صورتحال من الحیث المجموع سکیورٹی اداروں سے لے کر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور عوام سبھی پر اثرانداز ہونے والا عمل ہے دہشت گردی کی لہر اور خود کش حملوں کا ناقد سیاسی جماعتوں کی بیٹھک کے زعماء اور عمائدین خود بھی شکار رہے ہیں ایسے میں موجودہ صوبائی حکومت کی نرم پالیسیوں اور مذاکرات و معاملت کے ضمن میں پیدا حالات پرتنقید کی گنجائش تو ہے اس پر بہرحال بات ہونی چاہئے اور صوبائی حکومت کو ان کی پالیسیوں اورخاص طور پراس معاملے میں وفاق اور سکیورٹی اداروں سے روابط کے فقدان اور تنہا پرواز کا صوبائی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کی گنجائش ہو سکتی ہے مگرکلی طور پر صورتحال کی ذمہ داری صوبائی حکومت کو نااہلی کا ا لزام دے کر اداروں کی پالیسیوں کو ہی قرار دینا حقیقت کے مطابق موقف نہیں۔عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی تازہ لہر ایک سنگین نوعیت کا عمل اور پورے ملک اور پاکستانی قوم کے لئے نیا چیلنج اور مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کا تقاضاکسی کوالزام دے کر اور دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنا نہیں اور نہ ہی انتشار کی کیفیت میں اس کا مقابلہ ہوسکتا ہے اس صورتحال میں جب پوری قوم کو متحد اور ایک مٹھی ہونے کی ضرورت ہے قومی وسیاسی رہنمائوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ معاشرے میں ایسی تفریق پیدا کرنے سے گریز کریں جس کی وجہ سے معاشرہ تقسیم ہو اور ان عناصر کے کسی طرح سے مونس اور ہمدرد پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یہ درست ہے کہ اس طرح کے عناصر سرحد پار سے منصوبہ لے کر آتے ہیں لیکن ان کے یہاں پہنچنے تک یقیناان کوایسے افراد سے لامحالہ واسطہ پڑتا ہے جو اس معاشرے سے واقفیت ہی نہیں رکھتے بلکہ اس کے فعال کرداربھی ہوں گے ۔ اس قسم کے حالات میں صوبے میں کس کی حکومت ہے اور مرکز میں کن جماعتوں کی حکمرانی ہے یہ عبث ہے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کی تفصیل میں جائیں تو معاشرے کا ہر کردار اور ہر طبقے کے افراد اس کا شکار ہوتے آئے ہیں اور مزید ایسا ہونے لگا ہے اور آئندہ بھی اس کاخطرہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت سیاسی مخالفتوں سے متاثر ہونے کا نہیں بلکہ متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کرنے کا ہے ۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایک عیسوی سال کے اختتام اور دوسرے کے آغاز پر بھی خیبر پختونخوا ‘ اسلام آباد اور بلوچستان میں صورتحال خطرے سے باہر نہیں افغانستان کے حالات کے باعث 2023ء کوبھی سکیورٹی کے حوالے سے خطرناک سال قرار دیا جارہا ہے ۔افغانستان میں صورتحال میں حوصلہ افزاء بہتری نظر نہ آنا اپنی جگہ تاہم مشکل امر یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش خطرات میں پہلے سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ستم بالائے ستم افغانستان میں نظام کی تبدیلی اور نئے سیٹ اپ کے بعد بھی حالات بہتر نہ ہوسکے۔ افغانستان میں بظاہر کوئی موثر سیاسی ،معاشی، انتظامی اورسیکورٹی نظام نظر نہیں آرہا جو مختلف امور کو بہترطریقے سے چلا سکے ۔گزشتہ سال صوبے میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوگیا تھاجس میں شہریوں کے علاوہ سیکورٹی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 28نومبرکو کالعدم تنظیم کیجانب سے سیزفائرخاتمہ کے اعلان کے بعد خیبرپختونخوا ،قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں پرتشدد واقعات کی لہر آئی اور اس دوران 2درجن سے زائد حملے صرف گزشتہ سال ماہ دسمبر میں ہوئے ۔واضح رہے کہ پاکستانی حکام اورسیکورٹی اداروں کی جانب سے بھی متعددبار قراردیاگیا ہے کہ پاکستان میں بیشتر حملے افغانستان سے ہورہے ہیں ۔مگر اس کے باوجود افغان حکومت کی جانب سے صورتحال کی بہتری کے لئے کوئی ٹھوس کوشش سامنے نہیں آئی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جب تک افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کی نقل وحمل اور سرگرمیاں نہیں روکی جاتی رواں سال کے دوران بھی پرتشدد واقعات سمیت سیکورٹی اہلکاروں پر حملے ہوسکتے ہیں ۔محولہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ان کا مقابلہ جہاں حکمت عملی کے ساتھ ہونا چاہئے وہاں ملکی سطح پر ان عناصرکے خلاف ایک سوچ اور ایک آواز ہونے کی بھی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی اور قومی سوچ کا مظاہرہ ضروری ہے اور سیاسی زعماء پر اس حوالے سے خاص طور پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کا ادراک کیا جانا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو