ایک اور سال کی آمدورفت

2022کا سال اپنے تمام تر ہنگامہ خیزی کے ساتھ اختتام کو پہنچ گیا ۔یہ سال دنیا کو کئی بحرانوں اور چرکوں کے زخم دے گیا ۔اس سال نے جنگوں کا روایتی میدان اور فوکس بڑی حد تک تبدیل کیا ۔اس سے پہلے عالمی کھلاڑیوں کی کُشتی کااکھاڑہ مسلمان دنیا تھی جن میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل تھے ۔بیتے ہوئے برس یہ فوکس یوکرین کی طرف منتقل ہو گیا جہاں روسی صدر ولادی میرپوٹن نے امریکہ او ریورپ کی سازشوں سے تنگ آکر یوکرین پر حملہ کر دیا ۔یوکرین کے صدر ولادی میرزلنسکی نے پوری مغربی دنیا کو مدد کے لئے پکارا اور یورپ وامریکہ نے دل کھول کر زلنسکی کی فوجی مدد کا آغاز کیا ۔یہی نہیں اسلامی دہشت گردی اور مسلم انتہاپسندی کے نام پر برسوں سے پروپیگنڈہ کرنے والے مغرب نے یوکرین کی جنگ کے لئے سفید فام عالمی رضاکاروں کی فوج بھرتی کرنے کا اعلان کیا ۔روس کی طرف سے یوکرین پر حملے نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ایک حصہ مغرب کے ساتھ کھڑا ہے تو دوسرا حصہ غیر جانبدار ہے یا اگر مگر کے ساتھ روس کے ساتھ ہے ۔یوکرین کا یہ بحران کئی ملکوں تک پھیل گیا جن میں پاکستان بھی شامل تھا ۔امریکہ جو پہلے ہی پاکستان کے سویلین سیٹ اپ سے خوش نہیں تھا عمران خان کے دورۂ روس کے بعد مزید ناراض ہوگیا اور ایک سائفر کے ذریعے پاکستان کی طاقتور قوتوں کو عمران حکومت کو بدلنے کو کہہ دیا ۔جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت برطرف ہوگئی مگر اس سے بحران کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ۔حکومت کو بدل کر بظاہر ایک سیاسی سیٹ اپ قائم کیا جس میں ملک کی نامی گرامی شخصیات اور پرانی سیاسی جماعتیں شامل ہیں مگر یہ سیٹ اپ اپنا اعتبار اور ساکھ قائم نہ کر سکا حالات بھی اس کے قابو میں نہ آسکے ۔معیشت کی حالت دگرگوں ہونے کا نتیجہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی صورت میں برآمدہوا ۔پٹرولیم مصنوعات ،بجلی گیس کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا سیلاب آگیا روپے کی قدر میں تاریخ کی بدترین ناقدری ہوئی ۔پاکستان سیاسی اور معاشی استحکام کی منزل سے کوسوں دور رہا ۔اسی سال افواج پاکستان کی قیادت میں تبدیلی ہوئی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ جنرل سید عاصم منیر نے افواج کی کمان سنبھال لی ۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر حالات پر سکوت غالب رہا مگر مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ کھٹ پھٹ کا عمل تیز ہو گیا ۔دہشت گردی بھی ایک بار پھر لوٹ آئی ۔ملک کے مختلف علاقوں میں پہ در پہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کا سلسلہ تیز ہوگیا ۔اس سال بھی ملک سے برین ڈرین کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ معاشی حالات کی خرابی کی وجہ سے اس عمل میں تیزی آتی چلی گئی ۔مجموعی طور پر یہ سال پاکستان کے لئے کسی طور پر اچھا نہیں رہا ۔ معیشت سے سیاست تک ملک بحرانوں کے بھنور میں پھنس کر رہ گیا ۔مجموعی طور پر اس خطے کے بحران بھی کسی طور تھمنے نہ پائے انہی میں ایک بحران چین اور بھارت کی مخاصمت ہے۔بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ ان کا ملک لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو یک طرفہ طور پر بدلنے کی کوشش سے اتفاق نہیں کرے گا ۔ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والے بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیا ن پر بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک ٹویٹ میں یاد دلا ہے کہ پاکستان بھی کشمیر میں یک طرفہ اور غیر قانونی تبدیلی کے اقدامات کو تسلیم نہیں کرے گا ۔امید ہے 2023کا سال مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش قدمی کا سال ہوگا۔اسی دوران بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ نگار نے نئے سال کے لئے بھارتی حکومت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ بھارت کے اس اقدام کا پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف مثبت جواب دیں گے مگر بھارت کی موجودہ حکومت ایسا نہیں کرے گی۔بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا روئے سخن چین کی طرف سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہونے والی پیش قدمی کی کوشش کی جانب تھا ۔لائن آف ایکچوئل کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان نزع کا باعث بن کر رہ گئی ہے ۔بھارت اس لکیر کے تقدس کا علمبردار ہے تو چین اس لکیرکے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کر رہا ۔چین کے ساتھ بھارت کی مخاصمت اور ایل اے سی کا معاملہ حقیقت میں بھارت کے لئے مکافاتِ عمل ہے۔بھارت جو خیالات کنٹرول لائن کے لئے رکھتا ہے اور پاکستان کو چڑانے کے لئے بہت سے اقدامات اُٹھاتا ہے بالکل وہی کچھ اس کے ساتھ چین بھی کر رہا ہے ۔بھارت نے پانچ اگست کے یک طرفہ قدم کے ذریعے کشمیر کے سہ فریقی مسئلے کو خراب کرنے کی کوشش کی ۔اب وہ چین پر یکطرفہ اقدامات کا مرتکب قرار دے رہا ہے ۔اسی بات کی جانب عبدالباسط نے بھارت کی توجہ دلائی ہے کہ وہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے حوالے سے یک طرفہ اقدامات کا الزام عائد کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر انہی یکطرفہ اقدامات کا مرتکب ہو رہا ہے۔بھارت کا دکھ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب وہ چین کے تمام اقدامات کے جواب میں سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں بھی نہیں دے سکتا ۔چین پر دہشت گردی کا الزام بھی عائد نہیں کر سکتا اور چین کو دنیا میں تنہا کردینے کی بڑ بھی نہیں ہانک سکتا ۔اس کے یہ سارے روپ پاکستان کے لئے ہوتے ہیںچین کے آگے بھارت صرف بھیگی بلی بن کر رہتا ہے ۔ایسے میں بھارتی دانشور کی طرف سے نئے سال کے لئے مودی حکومت کو پاکستان سے مذاکرات کا ہاتھ بڑھانے کا مشورہ ہوا میں چلایا جانے والا تیر ہے ۔انہیں یقین ہے کہ مودی حکومت معقولیت کا راستہ اختیار نہیں کرے گی ۔یوں بھی بھارتی حکومت اس وقت طاقت کو ہر مسئلے کا حل جان کر کشمیر میں بدترین مظالم کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے ۔پاکستان اپنے مسائل اور مقدر کے بھنور میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔بھارت اس صورت حال کا فائدہ اُٹھا کر کشمیریوں کا گلہ گھونٹ رہا ہے ۔مسئلہ کشمیر کے زمینی حقائق اورا س کی متنازعہ حیثیت کی علامتوں کو مٹانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے ۔ایک موہوم امید ہے کہ نئے سال میں پاکستان اپنے سیاسی اور معاشی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوکر کشمیریوں کی بہتر انداز میں وکالت کرنے کی پوزیشن میں آئے گا۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے