زرزر کشددرجہاں گنج ،گنج

پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ جمعہ سے مہنگائی کے خلا ف احتجاجی مہم کا آغاز کیا ہے ، دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان میں ہر سیا سی جماعت مقبول نعرے یا مقبول مہم جوئی کی طرف بڑھتی ہیں ، ماضی میں بھی مسلم لیگ ن ، جما عت اسلا می ، اے این پی ، پی پی مہنگائی کے خلا ف تحریک چلا تی رہی ہیں اور اگر یہ جما عتیں جو آج برسراقتدار ہیں کل وہ بھی اسی مقبول بیانیہ کا سہا را لے کر سیا ست کی جگ مگ کر نے کی سعی کر یں گی ، تاہم اس وقت ملک کی معیشت کی جو زبو ں حالی ہے اس بارے میںکوئی کلا م نہیں کیا جا سکتا ، یہ ادعا بھی کیا جا تا ہے کہ ان سیا سی پارٹیوں پاس کوئی ایسا چھو منتر ہے کہ ملک کی معیشت کی زبو ں حالی کو پھونک ما رتے ہی اڑا کررکھ دیں گے ، مگر ہمیشہ نتیجہ وہی ڈھا گ کے تین پات نکلا ، معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ جن کو بھوکے ننگے اجڈ کا خطاب دیا جا تا رہا ، آج ان کی معیشت کہا ں کھڑی ہے جی بنگلہ دیش اس وقت چالیس ارب ڈالر کامحفوظ زرمبادلہ سمیٹے بیٹھا ہے ، جب وہ مشرقی پاکستان تھا اس کی معاشی حالت کیا تھی وہ اب بھی ریکا رڈ پر موجود ہے ، یہ ہی نہیں بھارت کے زرمبادلہ ذخائر چھ سو ارب ڈالر کے قریب تر ہیں ، پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے فریا د غریبی لے کر ایک ایک کے دروازے پر سر ٹیک رہا ہے ، مہنگائی کے بارے میں یہ ہی جو از دیا جاتاہے کہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے ، جو عوام کے ساتھ ایک حربہ ہے ، مہنگائی قیمت کے چڑھاؤ کانام نہیںہے قوت خرید اس کا پیما نہ ہے کہ کسی اشیا ء کی قیمت کتنی ہے چڑھی ہوئی یا کتنی ہی گری ہوئی دیکھنایہ ہو تا ہے کہ عوام کی قوت خرید میں کس قدر سکت ہے ، یہ کہا وت یو ں ہی مشہور ومعروف نہیں کہ ”سوالاکھ کا ہاتھی سستا ، ٹکے کا ہا تھی مہنگا ، نئی پو د شاید ٹکے سے واقف نہیں ٹکا وہ سکہ تھا جس میں دو پیسے ہو ا کرتے تھے یا پھر بنگلہ دیش میں ایک روپے کے نو ٹ کو ٹکا کہا جا تا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے دور میں ایک عظیم صنعتی ملک بنتاجا رہا تھا ، پاکستان کا روپیہ جنوبی ایشیامیں سب سے زیادہ مضبوط تھا ، ایوب خا ن کے دور میں سونا صرف نوے روپے تولہ تھا ، آج کیا حالت ہے اس کا اندازہ یو ں لگالیاجا ئے کہ ایو ب خان کے دور میں کلرک کی تنخواہ ایک سو بیس روپے ہو ا کرتی تھی اور آج سونے کی قیمت ایک لا کھ اٹھاسی ہزار کے قریب تر ہے کیا آج کلر ک اسی شرح سے تنخواہ لے رہا ہے جس شرح سے ایو ب خان کے دور میں ملا کر تی تھی ، اب ہر روز سینکڑوں روپے کی بلندی سے سونامہنگا ہوتا جارہا ہے ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک کی معیشت ٹھیک کرنے والے لسی پی کے سور ہے ہیں ، اور ایک دوسرے کو مو ردالزام لگا نے پر ادھار کھا بیٹھے ہیں یہ درست ہے کہ معیشت کی مضبوطی کے لئے سب سے پہلے ملک میں سیاسی استحکام کا ہو نا لا زم ہے جس کا پاکستان میں فقدان ہے ، اسی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں ہو پارہی ہے ، ایو ب خان کے دور میں پاکستا ن کو صنعتوں کی جنت کہا جا تا تھا ، نہ صر ف غیر ملکی سرما یہ کا ری ہو رہی تھی اندر ون ملک بھی سرمایہ کا ری عروج پر تھی اصفہانی ، آدم جی ، سہگل ، جعفر برادرز ، رنگون والا ، افریقہ والا ، سیٹھ داوؤد اور بہت سے سرمایہ کا روں نے پاکستان کی صنعت کو اوج ثریا پر پہنچا دیا تھا کہ پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر کہا جا نے لگا تھا ۔ لیکن بھٹو مر حوم نے برسراقتدار آتے ہی اکتیس صنعتی یونٹوں ،تیرہ بینک ، چودہ انشورنس کمپنیاں ، دس شپینگ کمپنیاں دوپٹرولیم کمپنیو ں ، اور بہت سے اداروں کو اپنے اسلامی سوشلزم کے نظریئے کی آڑ لے کر قومی ملکیت قرار دیتے ہوئے حکومت کی تحویل میں لے لیا ، جب سے پاکستان کی معیشت کا پٹاخہ ہو گیا ، جو اب تک جا ری ہے ۔جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں سرمایہ کا روں کا اعتما د بحال کر نے کی مساعی کی تھی اور معمولی سی پیش رفت بھی ہوئی مگر اعتما د پوری طرح بحال نہیں ہو سکا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کا ر چاہے ملکی ہو یا غیر ملکی اس کو جب تک یقین نہ ہو کہ حکومتی تسلسل میں یکسانیت رہے گی کسی اونچ نیچ کا امکا ن نہیں پایا جا ئے گا اس وقت تک سرمایہ کا ری نہیں کرتے ، ایو ب خان سے ہٹ کر بعد کا دور کبھی بھی پاکستان میں خالصتاًجمہو ری دور نہیں رہا ، جو سویلین حکمر ان آئے وہ بھی آمرانہ طرز پر کاروبار حکومت چلا تے رہے یا اسٹبلشمنٹ نے اچک لیا ، چنانچہ جب تک پاکستان کے ارباب حل وعقد سنجیدگی سے اس امر کا جائز ہ نہیں لیں گے کہ پاکستان کی معیشت کہا ں سے ڈوبنا شروع ہوئی اور کب سے ڈوب رہی ہے ، کیوں ڈوب رہی ہے اور اس کا تدارک کیا ہے ، اس کے ساتھ ہی تما م ادارے اپنی آئینی و قانونی حدود میں آجائیں تب تک پاکستان کو نہ معاشی اور نہ سیا سی استحکا م حاصل ہو سکتا ہے یہا ں یہ بات بھی یا د رکھنا چاہیے کہ جب پاکستان کا وجو د قائم ہو ا تو اس وقت کچھ حلقوں کی جا نب سے کہا جا تا تھا کہ دس بیس سال کی بات ہے پاکستان کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکتی اور واپس جھولی میں آگرے گا، چنانچہ پچھتر سال سے یہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بیرونی دشمن اندرونی دشمن کے ساتھ پاکستان کے معاشی استحکام سے کھیل رہے ہیں اور نو بت بہ ایں جا رسید ، یہ کسی حدتک درست ہے کہ اس وقت پو را عالم کساد بازاری کا شکا ر ہے ، خاص کر برطانیہ میں معیشت کا جو حال ہے اس نے برطانیہ میں آباد ہر فرد کو آٹھ آٹھ آنسوؤں سے رلا دیا ہے ، اس کساد بازاری کے اثرات دیگر ممالک کی طرح پاکستان پر بھی پڑے ہیں مگر عالمی کساد بازاری ہی پاکستان کی میشت کے بگاڑ کی ذمہ دار نہیں ہے دراصل سرمایہ کارجوپاکستان میں سب سے زیادہ محفوظ سرمایہ کا ری رئیل اسٹیٹ کو سمجھ رہا تھا اب اس نے اس طرف سے ہا تھ کھینچ لیا ہے جس کی وجوہا ت کا گزشتہ گفتگو میں اظہا ر کیا جا چکا ہے اس وقت سرمایہ کا ری سونے کی خریداری پر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے سونے کی قیمتوںکوپر لگے ہوئے ہیں اور ایسا پاکستان میں نہیں دنیا میںہو رہا ہے چنانچہ بیر ون ملک اس سرمایہ کا ری کو مد نظر رکھتے ہوئے بینکو ں نے سونے کا براہ راست بیوپا ر شروع کر دیا ہے اور کئی ممالک میں سونے کے اے ٹی ایم متعارف کر ائے جا چکے ہیںجن میںبھارت بھی شامل ہے چنا نچہ اب کوئی بھی شخص اپنے اے ٹی ایم کا رڈ سے مطلوبہ رقم کے عوض سونا حاصل کر سکتا ہے ، جس کا بینک کو یہ فائد ہ حاصل ہو رہا ہے کہ وہ اے ٹی ایم کے ذریعے ما رکیٹ ریٹ کے مطا بق سونا فروخت کررہے ہیں اور اس طرح سونے کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے پاکستان جیسے ملک اس حرکت سے پستے جا رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟