تنگ آمد بجنگ آمد

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغان حدود سے آئے روزکے حملوں اور ٹی ٹی پی و دیگرکالعدم تنظیموںکی کارروائیوں اور داخلی امن وامان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے کر اہم فیصلے کئے گئے اس دوران وزیر داخلہ کایہ انٹرویو کہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے، ان کو کلیئر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ افغانستان ہمارا اسلامی برادر ملک ہے اس لیے سب سے پہلے افغانستان کو ٹی ٹی پی کی موجودگی کے حوالے سے بتائیں گے اور ان کے خلاف کارروائی کرکے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا کہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائی نہیں کرتا تو پھر بین الاقوامی قانون کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی دہشت گروہ کسی اور علاقے میں موجود اپنے ٹھکانے سے حملہ کرنے کا منصوبہ کرے تو اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اگر افغانستان سے کوئی جواب نہیں آتا تو پھر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔دریں ا ثناء افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور ممکنہ حملے سے متعلق پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے بیان کو اشتعال انگیز اور بے بنیاد سمجھتے ہیں۔واضح رہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی جو افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی قیادت کی ہدایت پر کیے گئے یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر افغان طالبان سے منسلک ہے جس نے سال 2022کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے115حملے کیے جن میں سے زیادہ تر گزشتہ سال اگست میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان کشیدہ تعلقات کے بعد ہوئے تھے۔بعد ازاں نومبر میں ٹی ٹی پی نے باضابطہ طور پر جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد صورتحال کا مزید کشیدہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک غیرمصدقہ اطلاع کے مطابق طالبان فوج قندھار میں جمع ہو رہی ہے اوران کو ممکنہ طور پرپاکستان کی جانب سے خدشات ہیں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ صرف داخلی معاملہ نہیں بلکہ اس کی منصوبہ بندی افغان سرزمین سے ہوئی ہے علاوہ ازیں بھی بھتہ کی کالیں افغان نمبروں سے آتی ہیںصورتحال کے تناظر میںافغان طالبان اور عبوری حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ تحریک طالبان سے مکمل طور پر برأت کا اعلان کرتی اوراپنی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی عملی طور پر اور نظرآنے والے اقدامات کے ذریعے سعی کرتی اور پاکستان کے خدشات کو دور کرنے پرعملی طور پرتوجہ دیتے پاکستان میں دہشت گردی اورٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور وہاں بھتہ کالز میں اضافے کے بعد وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے باقاعدہ طور پرافغانستان کا دورہ کیا تھا اس دوران یقینا ان معاملات کو طالبان قیادت کے سامنے رکھا گیا ہوگا مگربعد کے حالات سے واضح ہے کہ افغان عبوری حکومت کی جانب سے معاملات کو سنبھالنے اور پاکستان کے تحفظات دور کرنے کے مد میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاگیامستزاد افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور پر حملے کے بعد سے مکمل تحفظ کی یقین دہانی نہ ملنے پر وہ ہنوز پاکستان میں موجود ہیں مزید چمن سرحد پر بار بار حملوں کے واقعات میںملوث عناصر کو سزا دینے میں بھی طالبان کی جانب سے چنداں دلچسپی کا اظہار سامنے نہیں آیا حالانکہ انہوں نے اس کا وعدہ کرکے معذرت بھی کی تھی ان سارے عوامل کے تناظرمیں یہ امرواضح ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ناکام ہوچکی ہے بجائے اس کے کہ وہ اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے انہوں نے قندھار میں فوجیں جمع کرنی شروع کردی ہے اس کی داخلی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں ممکن ہے اس اجتماع کا مقصد کوئی اور ہو لیکن جاری صورتحال کے تناظر اور خاص طور پر وزیر داخلہ کے واضح بیان کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ ان کو پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا خدشہ ہے بجائے اس کے کہ وہ ا ن مراکز کوختم کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرتے اور دوحہ معاہدہ کی پاسداری کرتے اور عالمی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے تقاضوں کومد نظررکھتے ان کی جانب سے اس طرح کا اجتماع کرکے کوئی اور پیغام دینے کی کوشش ہو رہی ہیبہرحال یہ ان کا داخلی معاملہ ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان کے پاس اباینٹ کا جواب پتھر بلکہ توپ اور جہازوں سے دینے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا ہے ایک ایسے ملک کے لئے جومعاشی طور پر سخت مشکلات میں گھرا ہوا ہے یہ ہر گز آسان نہ ہو گا جبکہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کی بھی پاکستان کی پالیسی نہیں رہی مگرحالات تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے بچنے کے لئے دونوں حکومتوں کے درمیان رابطے اورصورتحال کواحسن انداز میں حل کرنے کی سعی کی ضرورت ہے افغانستان میں بھی معاشی اور ملکی حالات کی صورتحال کچھ اچھی نہیں اور نہ ہی کشیدگی ان کے مفاد میں ہے بنابریں ہر دو فریق کی آخردم تک یہی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ معاملات کی سنگینی کوسمجھیں اور اس کا احساس کرتے ہوئے خواہ مخواہ ایک دوسرے کو امتحان میںڈالنے سے بچائیں۔ کشیدگی کی بجائے دونوں ممالک سفارتی سطح پر اور سرحدی حکام کی سطح پر فوری طورپراس بارے رابطہ استوار کرکے معاملات کوناقابل واپسی نکتے پر پہنچنے سے بچانے کی ذمہ داری پوری کریںاسی میںدونوں ممالک اور خطے کے امن کامفاد ہے۔

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟