اپنی عادت پر نظر ثانی کیجئے

کئی ہزاربار کی سنی ہوئی کہانی ہے ‘ کہ ایک بادشاہ نے ایک بارایک حوض تعمیر کروایا اور اعلان کروایا کہ رات کو شہر کا ہر ایک شہری اس حوض میں ایک پیالہ دودھ لا کرڈالے گا۔ رات کے اندھیرے میں ہر گھرسے لوگ اپنے اپنے حصے کا پیالہ لے کر نکلے اور حوض میں ڈال کر آئے ۔ صبح دیکھا توحوض پانی سے بھرا ہوا تھا ‘ ہرایک شخص نے یہ سوچ کر پانی ڈالا کہ دوسرادودھ ڈال دے گا اور یوں سب نے ہی پانی ڈال دیا۔ پاکستان کی حالت ہمیشہ سے ایسی ہی ہے ‘ اور یہ کہانی دہراتے بھی مجھے دو دہائیاں گزر گئی ہیں ‘ اور صورتحال ویسی کی ویسی ہی ہے
نہ تم بدلے نہ ہم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارانقلاب آسماں کر لوں
یہ شعربھی اتنے سالوں میں اپنی کیفیت بدل نہیں سکا۔ اب بھی پاکستان اور اس میں رہنے والے خود اپنے ہی معاملات کے الجھائو کاشکار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اس خیال کا شکار ہے کہ اس ملک کی ابتری اور ہماری بدحالی کا الزام کسی اور کے سر پر ہے ۔ کبھی سیاستدانوں ‘ کبھی بیورو کریٹس ‘ کبھی فوج ‘ کبھی عدلیہ ہم نے اپنی پسند کے مجرم چن رکھے ہیں اور ہم میں سے کئی تو ایسے باکمال ہیں کہ ہم خود کو ایک مجرم تک مخصوص ہی نہیں کرتے ‘ جب چاہتے ہیں ‘ جس پر چاہتے ہیں ‘ الزام دھرتے ہیں ‘ دل مطمئن کرلیتے ہیں لیکن اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہمارامجرم کوئی اور نہیں ہم خود ہیں اس ملک کے مجرم بھی ہم میں سے ایک ہے ‘ کسی امیرغریب کی اس جرم میں کوئی تخصیص نہیں ہم نے اپنی اپنی بساط بھر اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے ۔ اگر ہم میں سے کوئی بھی اس ملک سے وفاداری کا خواہشمند ہوتا تو یہ کب ہوتا جو آج اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ یہ سیاست دان اس ملک کی تباہی میں حصہ دار ہی کیسے ہوتے اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا کیا ہوا ایک غلط فیصلہ انہیں عوام کے کٹہرے میں لاکھڑا کرسکتا ہے ۔ انہیں کسی بھی جرم کی اجازت کیسے ملتی اگر انہیں یہ خوف ہوتا کہ لوگ اس ملک کے ساتھ کسی اجتماعی ناا نصافی کو برداشت نہ کریں گے ‘ لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی جذباتی اور حساس ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ میرٹ کی پامالی ان کے مستقبل کوتباہ کر سکتی ہے ۔ لوگ اپنے کل کومحفوظ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے کسی ادارے میں سیاسی بھرتیوں کی گنجائش نہیں ۔ اگر کوئی غلط منصوبہ لوگوں کی نظرمیں آگیا جس پر خرچ کیا گیا روپیہ اس کی یافت سے کہیں زیادہ ہو تو لوگ آئندہ کبھی ووٹ نہیں دیں گے تو سیاست دانوں کی کیا مجال تھی کہ اس ملک کو اس طرح بیچ کھاتے جیسا کہ کیا گیا ۔ اگر بیورو کریسی کو یہ خوف ہوتا کہ اگر میں وقت پردفتر نہ آئوں ‘ اپنا کام وقت پر نہ کروں یا کہیں میری رشوت کی اطلاع کسی عدالت میں ہو گئی تو میری نوکری ہی چلی جائے گی تو بیچارہ بیورو کریٹ اپنے دفتر میں ہی بیٹھا کانپا کرتا ‘ اگر فوج کے بجٹ پر بحث ہو سکتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ غربت کے مارے ہوئے اس ملک میں بنے فوج کے کنٹونمنٹ کسی اور ہی دنیا کا منظر پیش کیا کرتے ‘ اگر انصاف وقت پر نہ ملتا تو احتجاج میں لوگ عدالتوں میں جانا ہی بند کر دیتے تو عدالتوں کے منظر اور ہوتے ‘ کتنی ہی باتیں ہیں جو دراصل ہماری غلطیاں ہیں جن کا خمیازہ ہم ہی بھگت رہے ہیں اور اس کا مورد الزام کسی اور کو ٹہرانے کو بے تاب ہیں۔
ہم ایک ایسے وقت کا نظارہ کر رہے ہیں جو انتہائی خوفناک ہے ۔ پاکستان کے استحکام کا خوف دلوں میں ہلکورے لے رہا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کسی پرالزام دھرنا تو چاہتاہے ‘ اس ملک کے لئے کام نہیں کرنا چاہتا ۔ کسی قسم کی کوئی پریشانی ‘ کوئی آفت ‘ کوئی خوف ہمیں قوم بننے پر مجبور نہیں کرتی ۔ ہم وہ لوگ ہیں جواپنی ناکامی کا بوجھ کسی اور کے کاندھوں پر لاد کر خود آرام کی نیند سو جاناچاہتے ہیں ‘ جو معجزوں کے لئے دعائیں ہی کرتے ہیں کبھی اور معجزوں کے لئے کام نہیں کرتے ۔ مہاتیر محمد سے لے کر طیب اردگان تک ہر ایک کی مثالیں تو زبان زد خاص وعام ہیں۔ لوگ ابھی تک یہ بھی نہیں بھولے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کی انتہائی بگڑی نیم جان معیشت سے عہدہ برآ ہوتے جاپانیوں نے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ریلوے ٹریک میں سبزیاں بھی اگائی ہیں کیونکہ جاپان جزیروں پرمشتمل ملک ہے اور وہاں زمین کم ہے ۔ کوریا نے اپنی داخلی جنگ کے بعد اپنے لوگوں میں محنت کی عادت سے چند دہائیوں میں اپنی حالت بدل لی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان ملکوں کی حالت میں تبدیلی کی وجہ ان کی عادات میں تبدیلی تھی زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ‘ چین کی ہی مثال لے لیجئے ایک ایسی قوم جسےLotus eaters کہا جاتا رہا اور ان کی کاہلی اورنشے کی عادت پر مغرب بھیبتی کستا رہا ‘ آج ان کی ترقی سے سب سے زیادہ خوفزدہ بھی مغرب ہی ہے ‘ اور دنیا کی مستحکم ترین معیشتوں میں شامل ہونے کے باوجود جاپان کا عالم یہ ہے کہ وہ آج اپنے ٹرین سٹیشنوں پرموجود اضافی جگہ میں عمارت کے اندر سبزی اگانے کے کام کا آغاز کر رہے ہیں اور وہ سبزی میدانوں میں اگی سبزی سے زیادہ مہنگی فروخت ہو رہی ہے ۔ جس قوموں کو کام کرنے کی عادت ہو جائے ان کی کیفیت تو ہم نے قطر میں گزشتہ دنوں منعقد ہوئے فیفا ورلڈ کپ میں ہی دیکھی جہاں میچ دیکھنے اور جیتنے کے بعد جاپانی باشندے سٹیڈیم صاف کرتے دکھائی دیئے ۔
آج یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی ‘ معیشت کی بہتری سب اس ملک میں بسنے والوں کی عادات میں مضمر ہے ۔ ہمارا المیہ ہم خود ہیں ‘ ہماری عادات ہیں۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اب25 کروڑ نفوس پرمشتمل ایک قوم اگر ایسی نظر بندی اور کوتاہ بینی کا شکار ہو توپھر حال وہی ہوسکتا ہے جوہمارا ہے ۔ چوراہوں پر بڑھتے ہوئے گداگروں کے ہجوم سے ہی اپنی قوم کے مزاج کو سمجھ لیجئے یہ معاملات تب تک سدھرنے کے نہیں جب تک ہم نہ سدھریں ‘ ایسے میں کسی کو دوش دیتے رہے ‘ عمران خان کے گلے میں یہ تختی ڈالیں یا میاں نواز شریف کے ‘ فوج کو مورد الزام ٹھہرا لیجئے ‘ یاعدالت کو ‘ یہ معاملہ تبھی بہتری کی جانب پہلا قدم اٹھائے گا جب ہم میں سے ہر ایک الگ الگ اور بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرے گا کہ ہم کام کریں گے ‘ انتہائی محنت کریں گے ‘ اپنی زندگیوں سے کم از کم ایک دہائی کے لئے تھکن کا نام ہی ترک کردیں گے ‘ ورنہ بگاڑ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں ۔ یہ عفریت نگلتا نگلتا ہمیں پورا ہڑپ کرجائے گا اور ہم اپنی کاہلی کی کوتاہی کا بس ماتم ہی کرتے رہ جائیں گے ۔ خدارا اب بھی وقت ہے اپنی عادات پر نظر ثانی کیجئے۔

مزید پڑھیں:  کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری