ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

پاکستان میں بجلی کی عوام کو دستیابی اچھے دنوں کی یادوں میں شامل ہے ۔ اس زمانے میں ابھی کنڈاکلچر متعارف نہیں ہوا تھا ‘ عوام میں خداخوفی کے علاوہ پاکستانیت بھی پائی جاتی تھی ‘اس لئے لوگ بجلی چوری کوحرام سمجھتے تھے ‘ مفتیان کرام کا یہ فتویٰ ہے کہ چوری کی بجلی سے گرم شدہ پانی پر وضو کرکے نماز روزہ کی عبادتیں مشکوک و مشتبہ ہوجاتی ہیں ۔ ان دنوں ہمارے گائوں کی ایک بہت دیندار خاتون تھیں ‘ لیکن جب بجلی مہنگی اورنایاب ہونے لگی توکبھی کبھار عوام الناس کی روش پر چلنے لگتی تو میں عرض کرتا کہ ایسی بجلی کے استعمال سے آپ کی نمازوں کی قدر میں کمی کے امکانات ہوسکتے ہیں تو وہ بہت دھڑلے سے جواب دیتیں کہ میرے شوہر نے پاک افواج کی پینتیس سال ملازمت کی ہے ‘ کیا مجھ ستر پچھتر برس کی بڑھیا کو اتنا حق حاصل نہیں کہ دسمبر جنوری کی ٹھٹھرتی راتوں میں وضو کے لئے کنڈا بجلی کے ذریعے ایک دو لوٹے پانی گرم کرکے استعمال کر سکوں۔ پاک افواج کے بڑے بڑے افسروں کرنیلوں’ جرنیلوں کے گھروں اوران کی بیوائوں کو آج اور تب جوسہولیات حاصل ہیں ‘ ان کو دیکھتے ہوئے اس خاتون کا سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل تو ہے ۔ ‘ ویسے ان بھاری بھر کم قسم کی اصطلاحات کے ذکر سے کیا عہد سامنے آجاتا ہے ۔ کارل مارکس نے کس عرق ریزی کے ساتھ ”بورژوایہ طبقات کو اپنی شہرہ آفاق تصنیف ” داس کیپٹل(Das capital) میں آشکار کیا تھا ‘ اس کی رو سے وہ طبقہ جو معاشرے میں ارتکاز زر اور گردش دولت میں رکاوٹ بنے ‘ بورژوا کہلاتاہے ۔
پاکستان میں موجودہ معاشرہ اس کی بہترین عکاسی کرتا ہے ۔ مزدور طبقے (عوام) کو بجلی گیس اور صاف پانی کی سہولت تو کیاحاصل ہوتی ‘ دو وقت کھانے کے قابل روٹی میسر ہونے میں شدید مشکلات درپیش ہیں’ اور دوسری طرف پاکستان کے اندراور باہر سیاستدانوں ‘ سرمایہ داروں اور امراء کے محلات ‘اربوں کھربوں کی دولت ‘ امریکہ ‘ لندن ‘ دبئی ‘سنگاپور ‘ سوئٹزر لینڈ ‘ فرانس اور نہ جانے کہاں کہاں ‘ کیا کیا موجود اوردستیاب ہیں۔ پاکستان کے اندرتین بڑے طبقات کو جومراعات حاصل ہیں ‘ وہاں بجلی گیس اورپانی کاکوئی مسئلہ نظر نہیں آئے گا یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو وطن عزیز کے مختلف محکموں میں پرکشش ملازمتوں کے علاوہ بھی ضروری مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
پاکستان میں دوسرا مراعات یافتہ طبقہ بیورو کریسی ہے ‘ وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے سرخاب کاایسا پر کلغی کے طور پرلگا لیتے ہیں کہ تیس پینتیس برس تک ہٹوبچو ‘ ہائو ‘ ہو گاڑیاں اور قسما قسم کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ‘ تیسراطبقہ رئیل سٹیٹ والوں کا ہے وہ سیاستدانوں کے ساتھ میل جول اور تال میل کے طفیل پاکستان بھر میں ہائوسنگ سکیموں کے ذریعے اربوں کما کر اس دنیا میں اپنے لئے جنت بنا لیتے ہیں اورعوام۔ محکمہ گیس والے بھی عجیب بادشاہ لوگ ہیں ‘ لاکھوں لوگوں (عوام) سے گیس میٹر نصیب کروانے کی فی میٹر ساڑھے سات ہزار روپے ڈیڑھ برسوں سے اپنے اکاوئنٹس میں جمع کروا کراس پر نفع کما رہے ہیں اورعوام کولولی پاپ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت نے نئے کنکشنز پرپابندی عائد کی ہے ۔
پشاور میںڈپٹی کمشنر نے سی این جی سٹیشنز کوگیس بند کروا کر اچھا فیصلہ کیا لیکن کیا گیس کی ضرورت ایک مہینہ(جنوری) تک ہوتی ہے ‘ اگرملک میں گیس کی کمی ہے توچاہئے کہ سی این جی سٹیشنز اس وقت تک بند رکھے جائیں جب تک گیس وافرمقدار میں دستیاب نہ ہو ‘ لیکن گیس سٹیشنز مالکان کوگناہ نہیں کہ انہوں نے کروڑوں کی سرمایہ کاری کی ہے ۔ قصور و نالائقی توحکومتوں کی ہے کہ منصوبہ بندی اور ویژن کے بغیر کام شروع کروا دیتے ہیں اورپھر نتائج عوام بھگتے ہیں۔پچھلے دنوں اپنے آبائی گائوں میں خواتین بیچاریوں کو دیکھا کہ سخت سردی میں گھاس پھونس جلا کر روٹیاں تپاتی ہیں ۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ اللہ پاک نے کرک کوگیس سے مالا مال کردیا لیکن اس کے باوجود یہاں کی عوام کو گیس پہنچانے کے انتظامات مفقود ہیں ۔ عوام بامر مجبوری غیر قانونی طریقوں سے پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس بھروا کر ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جان پرکھیلنے کے مترادف ہے ‘ پچھلے دنوں گیس کی فراہمی کے لئے عوام نے میٹھا خیل کے مقام پر انڈس ہائی وے بند کروا کر حکومت اور انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ عوام کو قانونی طریقے سے گیس فراہم کی جائے جوان کا بنیادی حق ہے ورنہ ظاہر ہے کہ نوجوان تو پھر جذبات سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کارخانے اور صنعتیں چلانا ضروری ہیں لیکن عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی افضل ہے ۔ یہاں کے عوام سردیوں میں گیلی لکڑی کے دھوئیں کے سبب آشوب چشم اور ٹی بی جیسے امراض کے آسان شکار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان میںایسی حکومت تشکیل پائے جن کا مطمع نظر ایک ہی ہو ۔ یعنی عوام کی خدمت ‘ کہ یہی جمہوریت ہے یہی فلاحی ریاست ہے اور یہی جدید فلاحی حکومت ہے ورنہ باقی سارے شغل بے کار ہیں ۔ اب مرعات یافتہ بس کریں اورعوام کا خیال رکھیں۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟