جھوٹ سے بھی برا ہے آدھا سچ

آئین کسی بھی قوم کی سیاسی زندگی کاآئینہ ہوتا ہے ‘ بدقسمتی سے باہم”اتفاق و اتحاد” سے اس چہرے کو مسخ کرنے کے ا قدامات سے اس چہرے کے خال وخد بگاڑنے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی جس نے ایک عرصے سے ملک کو مستقل آئینی بحران سے دوچار کر رکھا ہے ‘ پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد اس دور کی سیاسی قیادت نے بڑی عرق ریزی سے بالآخر ایک متفقہ آئین ترتیب دے کر اسے نافذ کر دیا مگر بقول ایک خاص طبقے کے موجودہ آئین کے ”خالق”(جنہیں اصولی طور پر تنہا آئین کا خالق سمجھا نہیں جا سکتا) ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں اپنی جماعت کی عددی برتری کی بنیاد پر آئین میں من مانی تبدیلیوں سے خود کو ڈکٹیٹر بنانے کے زعم میں آئین کا حلیہ بگاڑنے کا آغازکیا ‘ اور یہ جو ہم نے اوپر ان کے حوالے سے آئین کے خالق ہونے کے دعوے کومسترد کیا ہے تواس کا ثبوت خود وہی لوگ آئین کو”متفقہ” قرار دے کر ‘ فراہم کر رہے ہیں چونکہ آئین کی تدوین میں باقی تمام جماعتوں کے قائدین کی کاوشیں بھی شامل تھیں اس لئے اسے متفقہ قرار دیا جاتا ہے ‘ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو نے جوبعض آمرانہ شقیں بعد میں شامل کرائیں ان کی وجہ سے ملک میں ایک بار پھرسیاسی مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور آنے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات نے ایک بار پھر سیاسی افراتفری کو جنم دیا اور حزب اختلاف نے انتخابی نتائج مسترد کرکے احتجاج کا آغاز کیا جو تحریک نظام مصطفیٰۖ کی شکل اختیار کرگیا ‘ ان حالات سے ضیاء الحق نے بھر پور فائدہ اٹھا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا ‘ آئین کو معطل کردیا ‘ بھٹو حکومت برطرف کردی گئی اس موقع پربعض سیاسی رہنمائوں نے پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے سے ضیاء الحق کے ہاتھ مضبوط کئے اور اس نے تین مہینے کے بعد انتخابات کرانے کے وعدے کوپس پشت ڈال کر اپنے اقتدار کوطول دیناشروع کیا ‘ اس موقع پراس دور کی عدلیہ نے بھی ان کو آئین کے ساتھ کھلواڑ کرکے اس میں ایسی ترامیم کی اجازت دی جس نے آئین کی شکل ہی مسخ کر دی۔ یہ سب اور کچھ دوسری باتیں اس لئے یاد آگئیں کہ ان دنوں ہم ایک بار پھر آئینی بحران سے دو چار ہیں ‘ خصوصاً صدرمملکت کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے جو اعلان فرمایا گیا ہے اس پر آئینی اور قانونی ماہرین متضاد آراء ظاہر کر رہے ہیں پلڈاٹ کے سربراہ بلال احمد نے اس حوالے سے گزشتہ روز جوبیان دیا تھا اس میں انہوں نے قرار دیا ہے کہ صدر مملکت کے پاس ایگزیکٹو پاورنہیں ہے ‘ جبکہ صدر نے از خود اعلان کرکے آئینی بحران پیدا کردیا ہے ‘ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدرمملکت تاریخ دے سکتے ہیں ‘ اب عدالت عظمیٰ ہی کوئی رولنگ دے گی۔ بقول امجد اسلام امجد
جھوٹ سے بھی برا ہے آدھا سچ
تبصرہ سوچ کر کیا کیجئے
کچھ”سمجھناک” لوگ صدرمملکت کے اعلان کو درست ثابت کرنے کے لئے ”جنتر’ منتر” قسم کی تاویلات پیش کر رہے ہیں جبکہ اصل مسئلہ صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینا نہیں بلکہ آئین اور قانون کے تحت درست اعلان ہے اور اعلان درست تب ہوگا جب معاملہ قومی اسمبلی یا پھر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق جنرل الیکشن کا ہویعنی قومی و صوبائی
اسمبلیوں کے ایک ساتھ عام انتخابات کا ہو ‘ البتہ جہاں تک صوبائی اسمبلی یا اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے انتخابات کی تاریخ کاتعین متعلقہ صوبوں کے گورنرز کی صوابدید ہے ‘ اور جنرل الیکشنز کے حوالے سے بھی صدرمملکت پر یہ آئینی پابندی عاید ہے کہ وہ چیف الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ غرض اس وقت بقول احمد بلال محبوب جو نیا آئینی بحران پیدا ہوا ہے اس کا فیصلہ یعنی اس حوالے سے آئین کی تشریح عدالت عظمیٰ ہی کر سکتی ہے اور حالات اسی سمت جارہے ہیں جب ایک بارپھرآئینی تشریح کے لئے عدالت ہی سے رجوع لازمی دکھائی دے رہا ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح اوپر کی سطور میں گزارش کی گئی ہے کہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لئے مارشل لائوں کے دور میں ان ادوار کی عدلیہ نے جو کردار ادا کیا اور نہ صرف جمہوریت کی بساط الٹانے والوں کے اقدامات کو تحفظ دیا گیا بلکہ آمروں کو ان کے ”بن مانگے” ہی آئین میں تبدیلیوں کا اختیار بھی ”شاہی طشتری” میں رکھ کرپیش کیا گیا ‘ جس کی مزید مثالیں جنرل مشرف کے دورمیں ملتی ہیں ۔ اس ضمن میں تمام ترآئینی اور قانونی موشیگافیاں ماہرین آئین و قانون کی”مہربانیوں” سے ہوتی رہیں۔ ملک کی تاریخ میں ایسے”جادوگروں” کی کمی کبھی نہیں رہی جنہوں نے آمروں کی مدد کرکے انہیں آئین کی دھجیاں اڑانے کے مواقع فراہم کئے ۔پاکستانی تاریخ کے ابتدائی دور میں ایک ایسے یہ قانونی جادوگر کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں جن کا نام اے کے بروہی تھا ‘ ان جیسا قانونی آئینی نکتہ رس کم کم ہی پیدا ہوا ‘ بعد میں ایوبی دور میں سامنے آنے والا شریف الدین پیرزادہ تھا
جن کے انتقال کوبھی زیادہ مدت نہیں گزری ‘ وہ بھی حقیقی معنوں میں آئینی جادوگر کہلاتے تھے ۔ ان کی خدمات بھی آئینی موشگافیوں کے حوالے سے تاریخ کا حصہ ہیں جن سے وہ طالع آزمائوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے تھے ۔ ان کے اسی کردار کے حوالے سے ہی شہزاد احمد نے کہا ہو گا کہ
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کرنہیں گیا جن دو آئینی جادوگروں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے ”کارنامے” اپنی جگہ مگرجیسا کہ دنیا ترقی کرتی جاتی ہے اور حالات میں بدلائو آتا ہے اسی طرح اب نہ صرف ملک میں ایسے آئینی ماہرین کی تعداد ماشاء اللہ دن بدن بڑھتی جارہی ہے جن کے بارے میں اگر یہ کہاجائے کہ وہ آئینی نکات کی تشریح کرکے اگر کسی واضح صورتحال کی نشاندہی نہ بھی کریں تو معاملے کو الجھا ضرور دیتے ہیں یعنی بقول شاعر
کارحیات ‘ ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
الجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تارزیست کے
حالانکہ اب معاملہ بقول شخصے اس سے بھی آگے جا چکا یعنی ماضی میں وہ جو عدلیہ طالع آزمائوں کوآئین میں من مانی ترامیم کی اجازت دے دیتی تھی ‘ اب اسی عدلیہ پراس قسم کے الزامات بھی سامنے آرہے ہیں کہ عدالت خود آئین ”تحریر” کر رہی ہے ۔ ان الزامات کا کارن وہ بعض فیصلے ہیں جن پرآئین کی واضح شقوں کو بھی مبینہ طور پر عدالتوں نے اپنی پسند کی”ترامیم” کے ذریعے تبدیل کرکے مزید بحران پیدا کئے ‘ بہرحال اب اس آئینی بحران سے کیسے نمٹا جاتا ہے جب تک پارلیمنٹ اس حوالے سے واضح لائن اختیار کرکے کوئی فیصلہ نہیں کر لیتی ‘ یہ آئینی بحران ختم ہونے کے امکانات شاید ‘ پیدا نہ ہو سکیں ‘ بقول ابن انشائ
توڑی جو اس نے ہم سے تو جوڑی رقیب سے
انشاء تو میرے یار کے بس توڑ جوڑ دیکھ

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ