موبائل اور آٹے دال کا بھائو

ہر معاشرہ اپنی ایک پہچان رکھتا ہے ہمارا معاشرہ مشرقی معاشرہ کہلاتا ہے جس کے خاص ا قدار ہیں خیبر پختونخوا میں پشاور کی اپنی ثقافت اور روایات ہیں شہری علاقوںکی روایات پختون معاشرے کی روایات سے الگ ہیں پختون معاشرے کا اہم حصہ پختونولی ‘حجرہ ‘ جرگہ ‘غیرت اور ننگ جیسی روایات ہیں غگ اور دشمنی پختون معاشرے کی خامیاں ہیں اسی طرح سرائیکی علاقوں ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ کی روایات اور طرز معاشرت تھوڑی مختلف ہے قبائلی اضلاع کے بھی بعض روایات پختون معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود تھوڑے سے مختلف ہیں اسی طرح سوات ‘ چترال کا معاشرہ بھی الگ اور منفرد ہے خیبر پختونخوا کے معاشرے کی خاص بات مختلف اللسان ہونے کے باوجود تعصب کی شرح کا نہ ہونے کے برابر ہونا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ساتھ ہی خیبر پختونخوا کا معاشرہ میں مساوات اور احترام انسانیت کا بھی عنصر نمایاں ہے اس کے مقابلے میں بلوچستان ‘ سندھ اور پنجاب میں سردار ‘ وڈیرہ اور چوہدری معاشرے کے وہ کردار ہیں جن سے بڑی خرابات وابستہ ہیں بلوچستان میں ایک سردار کے ظلم و تعدی کی جو داستان سوشل میڈیا پر گردش میں ہے وہ بلوچستان کے سرداری نظام کاوہ بھیانک چہرہ ہے کہ گھن آتی ہے سندھ اور پنجاب میں وڈیروں اور چوہدریوں کے مظالم کی بھی داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں شکر کا مقام ہے کہ خیبر پختونخوا میں اس طرح نام کی کوئی چیز نہیں خان خوانین ہوتے ہوں گے لیکن اس قدر توہین انسانیت اور ظلم کا نہیں سنا اور اگر کہیں ایک آدھ واقعہ ہو بھی جائے تو اسے معاشرے کا پرتوقرار نہیں دیا جاسکتا اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہاں کی وہ ثقافت بھی ہو سکتی ہے جو” ٹوپک زما قانون”کہلاتا ہے کہ بے بس آدمی پھراگلے کو بھی نہیں چھوڑتا ۔ قدیم و جدید معاشرے کا تذکرہ برسبیل تذکرہ ہی آیا ورنہ مقصد نئے دور کی نئی ایجادات و ضروریات کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماڈرن ازم کے نام پر جدیدیت کو جس طرح ہم نے ترقی اور تہذیب کازینہ سمجھ لیا ہے اس کے اثرات سے ہمارا معاشرہ بگاڑ کی راہ پر ہے اور بدقسمتی سے اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ماڈرن ازم سے اخلاق و اطوار ‘ لباس و اطوار سبھی متاثرہ ہیں ۔ دنیا نے بلاشبہ بہت ترقی کرلی ہے نئی نئی اختراعات زندگی کا حصہ اور ضرورت بن گئی ہیں اب ان کا استعمال کس طرح کیا جائے یہ ہماری صوابدید پر ہے ۔ آج کی جدید ایجادات میں کمپیوٹر اور موبائل انسان پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہیں
اور درحقیقت ان شیطانی بکسوں نے معاشروں کارخ بدل کر رکھ دیا ہے کمپیوٹر گیمز نے بچوں کو پارکوں اور کھیلوں کے میدانوں سے اٹھا کر کمروں کا اور یہاں تک کہ بستروں کا باسی بنا دیا ہے موبائل نے معاشرے اور انسانی زندگی کو جس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ بلاشبہ یہ ایک نعمت بھی ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ مثبت امور میں کم اور تخریب و بے راہروی میں زیادہ استعمال ہونے لگا ہے بہرحال یہ ہر کسی پر منحصر ہے کہ وہ اس سے شیطانی فائدے اٹھاتا پڑے یاپھر اسے آسانی سہولت اور اچھے
و مثبت کاموں کے لئے بروئے کار لاتا ہے ۔ اس کا ایک استعمال بہرحال عام ہے جس میں چھوٹے بڑے بزرگ سبھی ایک صف میں نظرآتے ہیں وہ ہے وقت کا ضیاع ۔ جسے دیکھو گھر میں ہو یا دفتر میں راستے پر چلتے ہوئے بھی بس موبائل کی سکرین پرآنکھیں لگی ہوتی ہیں اس ایجاد کے باعث معاشرے میں تو اپنی جگہ گھر میں والدین بہن بھائیوں اور بچوں کے درمیان تعامل و ملاقات اور مل بیٹھنے کا عمل مفقود ہوچکا ہے ہرکسی کا اپناکمرہ ہے اور اپنے مشاغل رکھتے ہیںلائونج میں بیٹھے ہوں یا پھر کسی دعوت میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن اور گم ہے اوریہی وہ خامی ہے کہ اس ایک خامی کی بنیاد پر ہی اسے شیطانی آلہ گردانا جا سکتا ہے قطع نظر اس کے کہ سرگرمیوں کی نوعیت کیا ہے لیکن وہ بھی ہو وقت کے ضیاع سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا ہر کوئی اس کا معترف بھی ہے اور بعض تو اس عادت بد سے چھٹکارے کے بھی خواہاں ہیں لیکن چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کولگی ہوئی والی بات ہے ۔ جو وقت ذکر و تلاوت ماں باپ سے گپ
شپ بچوں کے حالات سے آگاہی کے لئے ہونا چاہئے وہ وقت بھی یہ چھوٹی سی ڈبیہ نما آلہ کھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں شاید جس چیز کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے وہ موبائل فون کی ہے گھر میں چھوٹے بڑے سب کے پاس ایک موبائل تو لازمی ہوتا ہے دو دو بھی ہوتے ہیں ایک سروے کے مطابق بائیس کروڑ کی آبادی میں تقریباً سولہ کروڑ موبائل فون ہیں ممکن ہے یہ رپورٹ درست نہ ہو لیکن دیکھا جائے تو اتنی بھی غلط نظر نہیں آتی۔ اس کا استعمال اب اس قدر عام ا ور بڑھ چکا ہے کہ تھکان اتارنے اور نیند پوری کرنے پر بھی اس کو ترجیح ملنے لگی ہے ۔ مدعا اس کی مخالفت نہیں بس توجہ کی ضرورت ہے کہ اس کا اعتدال اور مثبت استعمال کیا
جائے ۔جہاں ہم ایک طرف موبائل جیسے ”سامان تعیش” کی بات کر رہے ہیں وہاں دوسری جانب ایک پیغام یہ موصول ہوا ہے جس میں اس تلخ حقیقت کا بیان ہے کہ عام آدمی کا گزارہ کیسے ہوتا ہے اس پیغام کو پڑھ کر کسی طور یہ نہیں لگتا کہ عام آدمی کا مسئلہ موبائل اور دیگر سہولیات ہیں عام آدمی کا مسئلہ ہے روٹی اور پیٹ پوجا باقی سب افسانے ہیں وہ مقولہ بھوکا آدمی کہانی بھی پیٹ سے سنتا ہے جب آنتیں قل ھو پڑھ رہی ہوں تو موبائل کا تصور ہی نہیںہو سکتا یہ سب بھرے پیٹ کی کہانیاں ہوئیں نا بھوکے پیٹ کے مسئلے کو اس برقی پیغام میں پوری طرح سمودیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
غریب آدمی ڈیفالٹ کر چکا ہے حضور والا
تنخواہ چار سال پرانی والی سال پہلے مالک مکان نے کرایہ50فیصد بڑھایا اب کہہ رہا ہے ڈبل کرو یا خالی کرو کم میں وارا نہیں، سکول والوں نے فیسیں پچاس فیصد بڑھادی ہیں، 1000والی کاپیاں کتابیں 3500 روپے ، 300 والا گیس بل 3000 روپے ، 2000 والا بجلی بل 10000روپے800والا آٹا 2000 روپے ،150 والا گھی650روپے روٹی 20 روپے 10 والا نان 30 اور 40والی چنے پلیٹ 100روپے،2200والا موٹر سائیکل ٹائر ٹیوب رم 6000 روپے 100والا پٹرول300 روپے لیٹر ، 5 والا چنگ چی کرایہ 30روپے، 200 والا جوتا 1200 روپے 1200والی شلوار قمیض 3500 روپے150والا ڈاکٹر 1500 روپے 150 والی دوا 600روپے ادھار سب کے بند۔
غریب کے پاس خود کشی یا جرم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا مکمل تباہی یقینی لگنے لگی ہے۔ صدقہ زکواة راشن جھگیوں میں بیٹھے نشئی اور جرائم پیشہ ٹبروں کو نہیں بلکہ پردہ داری کے ساتھ سفید پوشوں کے گھروں میں پہنچا ۔اللہ پاک ہم سب پر اپنا کرم اور رحم فرمائے ۔ آمین۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی