بارے رمضان کے کچھ بیاں ہو جائے

صد شکر کہ شعبان المعظم کے حوالے سے کوئی تشویش لاحق ہوئی نہ اس بابرکت مہینے کے حوالے سے رویت ہلال کا کوئی قضیہ سامنے آیا ، ویسے عموماً ایسا ہوتا بھی نہیں یعنی شعبان کا مہینہ اتفاق سے ہمکنار رہتا ہے۔ کہیں سے کوئی نا اتفاقی پیدا نہیں ہوتی’ خواہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہو۔ صوبائی کمیٹیاں یا پھرمشہور زمانہ ”نجی کمیٹیاں” جو کھمبوں کی طرح نہ جانے کب سے نہ صرف آئی ہوئی ہیں بلکہ لہلہا بھی رہی ہیں اور بوقت ضرورت اپنے ہونے کا ثبوت بھی فراہم کر دیتی ہیں’ یعنی اس ضرورت کے لمحات بہر حال شعبان کے اواخر میں بقول شاعر
اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں
ہم بھی زنجیر ہلا دیتے ہیں
چونکہ آئے رمضان کا بابرکت مہینہ ہوتا ہے جس میں کچھ طبقوں کے لئے” برکت” کی کئی نشانیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اس لیے ان میں سے ہر طبقہ خوشی خوشی استقبال رمضان کے لئے اپنے اپنے طور پر تیاری شروع کر دیتا ہے ‘ تاہم سب سے پہلے اور اصل مسئلہ رمضان کے چاند کے”استقبال”کا ہوتا ہے۔ جو بعض اوقات اختلاف کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ سو دیکھنا اب یہ ہے کے یہ جو شعبان المعظم کے چاند پر کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا اور بالاتفاق تمام طبقہ ہائے فکر یعنی علمائے کرام نے ایک ہی روز شعبان کی رویت پر آمنا و صدقنا کرلیا تھا ، اب کیا یہی اتفاق و اتحاد رویت رمضان پر بھی برقرار رہنے کا یا پھر وہ جو اکثر و بیشتر عدم اتفاق کی بنیاد یہیں سے پڑ جاتی ہے تو اسی ”روایت” کا اعادہ کیا جائے گا ؟تاہم اگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے رمضان شریف کا آغاز بھی پورے ملک میں ایک ہی روز سے ہو جائے تو دعا یہی ہوگی کہ اے اللہ کریم ہمیں آگے جا کر بھی اسی طرح متحد و متفق رکھنا یعنی شوال کے چاند پربھی ہمارے بیچ عدم اتفاق کی صورتحال پیدا نہ ہونے دینا، ویسے یقین اور عدم یقین کے درمیان ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے جسے عدم اتفاق کا بارڈر بھی آپ قرار دے سکتے ہیں۔ اور ماضی میں اکثر و بیشتر اسی کیفیت سے ہمیں دو چار ہونا پڑا ہے۔ جس میں کبھی کبھی کچھ اہم شخصیات کی ذاتی انا بھی شامل حال رہی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات اس ”ضد اور ہٹ دھرمی” کی تھی جو ایک سابق چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کو لاحق رہی تھی اور ایسی صورتحال واضح ہونے کے باوجود کہ ان کا فیصلہ درست نہیں تھا ۔ یہاں تک کہ ایک آدھ بار تو انہوں نے خود حکومتی سرپرستی میں قائم صوبائی سطح کی رویت ہلال کمیٹیوں کے فیصلوں کو بھی قابل غور نہیں سمجھا۔ جس پر متعلقہ صوبائی کمیٹی نے بھی احتجاج کیا۔ دراصل اس قسم کے رویئے کے پیچھے مبینہ لسانی اور نسلی”تفاخر” کارفرما رہتی ہے اس کی وجہ کیا ہے اس حوالے سے زیادہ کھل کر بات کی جائے تو مناسب نہیں ہوگا’ بلکہ خوف فساد خلق کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے حالانکہ بعد میں متعدد بار موصوف کے فیصلے کی ”حقانیت” پر خود فطرت نے کئی سوال یوں پیدا کئے کہ سرکاری سطح پر دوسری کاچاند ‘ دوسری کا نہیں بلکہ تیسری کا واضح طور پر دکھائی دیتا تھا کہ نہ صرف زیادہ روشن ‘ زیادہ بلند اور زیادہ دیر تک آسمان پر چمکتا دکھائی دیتا تھا اسکی تاویل یہ دی جاتی کہ سابقہ چاند چونکہ پورے تیس دن کا تھا اس لئے شوال کاچاند زیادہ پختہ ہو کردکھائی دیتا ہے ‘ مگراس کی قدرتی تردید آگے جا کر چودھویں کے چاند سے ہو جاتی لیکن اس صورتحال پر مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے کبھی اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے اعتراف نہیں کیا بلکہ عید کے روز(ایک اضافی) روزہ رکھوانے سے اسلامی شعائر کے مطابق جس غلطی کا ارتکاب کیا اس کا ازالہ کیا ہو؟ اس پر بھی نہیں سوچا ۔ یعنی بقول ڈاکٹر انعام الحق جاوید
چاند نکلا ہے یا نہیں نکلا
ہر جگہ ایک گفتگو ہے میاں
چاند نکلے تو اس کی مرضی سے
بس یہی ایک آرزو ہے میاں
خیراب دیکھتے ہیں کہ اس بار رمضان المبارک میں کیا صورتحال رہتی ہے رمضان کے چاند پر اتفاق کیا جاتا ہے یا پھر نہیں’ لیکن وہ جو ہم نے اس” بابرکت” مہینے کی برکات کا تذکرہ کیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ صرف ہمارا ہی ملک ہے تمام تر”برکات”صرف چند مخصوص طبقات کے لئے ہی ہوتی ہیں ‘ رہ گئے بے چارے غریب عوام تو ان کی جو حالت ہوتی ہے اس کا تذکرہ کیا کیا جائے ‘ کہ بقول امید فاضلی
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
اس لئے بہتر ہے کہ کسی اور”دنیا”کی بات کی جائے ہمیں یاد ہے کہ ایک بار ہمیں ایک مشاعرے کے سلسلے میں چند برس پہلے قطر جانے کا موقع ملا تھا مجھے جن دنوں میں ہم وہاں گئے تھے تو یہ وہ دن تھے جب رمضان کے آغاز میں دو ڈھائی ہفتے باقی تھے’ بڑے بڑے سٹورز سے لیکر چھوٹی چھوٹی دکانوں تک پر”رمضان ”کریم کے بینرز آویزاں تھے اور ہر چیز پر خریداروں کے لئے انتہائی واضح ارزانی کی نوید دی جا رہی تھی یعنی سستی چیزوں میں صرف اشیائیخورد و نوش ہی نہیں تھیں ، بلکہ دنیا جہان کی دیگر مصنوعات یہاں تک کہ موٹرسائیکلیںتک سستی کر دی گئی تھیں ۔ اس سے سستی بیچی جانے والی اشیاء کی فہرست آپ خود بنا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ ہر بڑے سٹور پر خریداروں کو ایسے ٹوکن بھی دیئے جا رہے تھے، یعنی فرض کر لیں کہ بنیادی خریداری کا ہدف50 ریال تھا تواسی حساب سے جتنا زیادہ سودا خریدا جا رہا تھا اسی حساب سے ٹوکن بھی زیادہ مل رہے تھے اور پھررمضان کے مہینے میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ‘ جبکہ شوال یعنی عید کے چاندوالی رات کو ہرجگہ قرعہ اندازی کی جاتی ہے اور لگژری گاڑیاں ‘ عام اچھی کوالٹی والی گاڑیاں اور دیگر لاتعداد انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں ‘ گویا یہی وہ ”رمضان کریم” ہے جسے ہمارے ہاں”رمضان مبارک” کہہ کر صرف چند مخصوص طبقات کو اس کی برکات کا حقدار قرار دیا جاتا ہے کہ تمام برکتیں تو یہ مخصوص طبقے ہی سمیٹ لیتے ہیں ۔ اب ذرا زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے ہمسائے کے گھر میں جھانکئے یعنی بھارت ہی کودیکھ لیں کہ وہاں رمضان کے مہینے میں سب سے پہلا اہم کام تو یہ کیا جاتا ہے کہ عمرہ کے زائرین کے لئے ہوائی جہاز کا کرایہ نمایاں طور پر کم کر دیا جاتا ہے ‘ جس سے وہ طبقہ جوپورا کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ نسبتاً کم کرائے کے عوض عمرہ کی سعادت حاصل کرلیتا ہے ‘ یہی حال حج پروازوں کابھی ہوتا ہے ‘ دوسرا اہم کام یہ ہے کہ صرف مسلمانوں کے لئے ان کے راشن کارڈوں پر (راشن کارڈ سسٹم اب بھی وہاں موجود ہے) سستا آٹا ‘ چینی ‘ گھی وغیرہ مہیا کئے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں وہ جو یوٹیلٹی سٹورز کا ایک چین ہے اور جس پر رمضان پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے اس سے استفادہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ خصوصاً گرمیوں میں روزے کی حالت میں کون گھنٹوں ان سٹورز کے باہر انتظار کا کشٹ اٹھائے؟ کہ بقول اتباف ابرک
مری مشکل کوتو سمجھے گا کیسے؟
مری مشکل تری مشکل نہیں ہے

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت