”روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت”؟

پاکستان آئی ایم ایف کے قرض کا سودادا کرنے کے لئے ایک قسط حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اب وہ دوسری قسط کیلئے جس کادورانیہ تین سال ہوگا کشکول دراز کئے کھڑا ہی تھا کہ اچانک امریکہ نے چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی کواس الزام کے تحت پابندیوں کا شکار کردیا کہ ان کمپنیوں نے پرزوں یا کسی دوسرے مواد کی فراہمی کی شکل میں پاکستان کے بلیسٹک میزائلوں کی تیاری میں مدد دی ہے ۔یہ پابندی عملی طور پر ان کمپنیوں پر کس طرح انداز ہوگی یہ تو الگ بات ہے مگر اس کے دومقاصد بہت واضح ہیں ۔اول یہ کہ پاکستان اور چین کے سٹریٹجک تعاون اور تعلق پر ایک گہرا وار ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ امریکہ اس تعلق کوبین الاقوامی اداروں کے ذریعے بھی کمزور کر سکتا ہے دوسرا اس کا سیدھا سادہ تعلق پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ہے جس پر روزاول سے امریکہ کی” نظر ِکرم ”رہی ہے ۔امریکہ نے اس پروگرام کو ہمیشہ پابندیوں کا شکار بنا یا اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان ترک تعلق کا پہلا سلسلہ بھی اس وقت چل نکلا تھا جب اسی کی دہائی میں پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ کا اگلا مورچہ تھاکہ پریسلر ترمیم کے تحت اسے پابندیوں کا شکار کیا گیا ۔امریکہ کے سینیٹر لیری پریسلر بھارت دوست سیاسی راہنما تھے اوراس کے بعد انہیں بھارت میں ایک ہیرو کی طرح چاہا گیا ۔واجپائی سے اڈوانی تک بہت سے لوگ ان کی آرتی اُتارتے تصویروں میں دکھائی دیتے رہے۔ اس ترمیم نے امریکہ کے اگلے مورچے کو دی جانے والی امداد کو امریکی صدر کی ذاتی ضمانت سے مشروط کیا تھا ۔گویا کہ امریکی صدر کو یہ ضمانت دینا تھی کہ دی جانے والی یہ امداد پاکستان نہ تو اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے اور ان پہلے سے تیار ہتھیاروں کی جدت اور وسعت کے لئے استعمال کرے گا ۔ یوں پریسلر ترمیم کے تحت عائد ہونے والی پابندیوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان پہلی واضح بداعتمادی پیدا کی ۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے میں یہ سوچ پید ا ہوئی کہ امریکہ پاکستان کا مشکل کا ساتھی نہیں بلکہ یہ پاکستان کو اپنے مشکل وقت میں استعمال کرتا اور پاکستان کے مشکل وقت میں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے ۔جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل اس سوچ کے اعلانیہ ترجمان اور شارح تھے ۔یہیں سے پاکستان کی اسٹیبشلمنٹ نے چین کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھانے کا راستہ اختیار کیا تھا ۔اس کے جہازوں میزائلوں اور پرزوں کا زیادہ تر انحصار چین پر ہوتا چلا گیا ۔اس میں ایک اور سہولت کسی مشکل وقت میں زمینی رسد کا آسان اور زمین کے ذریعے جاری رہنا بھی تھا ۔اس لئے پاکستان اور چین کا دفاعی تعاون امریکہ کا اہم ہدف رہا ۔پریسلر ترمیم اس لحاظ سے ناکام ثابت ہوئی کہ اس کی موجودگی میں پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کر لی۔پاکستان کو معاشی طور مفلوج کرنے میں یہی سوچ کارفرما تھی کہ جب یہ ملک کلی طور پر آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر آجائے گا تو اس کے ہاتھ میں روٹی تھما کر چاقو چھین لیا جائے گا۔نائن الیون کے بعد تو یہ سوچ احتیاط کے ساغر سے پوری طرح چھلک پڑی تھی ۔آج پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر آچکا ہے اوراس عالم بے خودی میں سفید کاغذ پر انگوٹھا لگوانا نہایت آسان ہوتا جا رہا ہے ۔ اب پاکستان معاشی بدحالی کے جس بھنور میں گھر چکا ہے وہاں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا پیدا ہونا بھی فطری ہے ۔ایک دور تھا جب پاکستان کی ترقی کے سفر کیلئے ایک محاورہ استعمال ہوتا تھا ”کانٹے سے کہوٹہ تک ”یہ محاورہ اس وقت سے مستعمل تھا جب بھارتی صحافی کلدیپ نائیر اہتمام کے ساتھ اسلام آباد بلوائے گئے جہاں ان کی ملاقات پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی علامت ڈاکٹر قدیر خان سے ہوئی تھی ۔ڈاکٹر خان نے ان کے کان میں ایک جملہ بولا تھا کہ پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا ہے اور وہ اب ایٹم بم بنانے کے پوزیشن میں آچکا ہے ۔پاکستان کی ترقی اورمحفوظ اور مستحکم ہونے کیلئے اس کی ایٹمی طاقت کو ایک علامت اور استعارہ بنا یا گیا ۔پاکستان کو اس طاقت سے محروم رکھنا مغرب اور بھارت کا خواب تھا ۔ایک عرصے تک تو پاکستان کہوٹہ میں ایسی کسی بھی سرگرمی سے انکاری رہا ۔امریکہ اسرائیل اور بھارت ہمیشہ اس تجسس میں مبتلا رہے کہ پاکستان کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کس سطح کی ہے ۔وہ اس حقیقت کو کبھی نہ پاسکے یہاں تک کہ پاکستان نے خود جتنا اور جو کچھ بتانانہ چاہا ہو۔ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کہوٹہ کو اس طرح چھپائے رہے جیسے کہ مرغی چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپائے رکھتی ہے ۔غلام اسحاق خان کا امریکی اہلکار رابرٹ گیٹس کے ساتھ ایک تاریخی جملہ کہا تھا ۔رابرٹ گیٹس نے غلام اسحاق خان کو کہا کہ پاکستان ایٹم بم کا انکار کر رہا ہے جبکہ اگر آپ کے گھر کے پچھواڑے میں کوئی چیز ایسی ہے جو بطخ کی طرح چلتی ہے بطخ کی طرح بولتی ہے تو پھر و ہ بطخ ہے ”جس پر اسحاق خان نے ترنت جواب دیا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ وہ بطخ نہیں ہے تو پھر وہ بطخ نہیں۔یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اس شبے کا اظہار کررہا تھا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے دی جانے والی امداد ایٹم بم کی تیاری میں صرف کی ہے اور یوں امریکہ کو افغان معاملات میں اُلجھا کر ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا ہے ۔اس مقصد کیلئے امریکی کانگریس نے پریسلر ترمیم بھی متعارف کرائی تھی جس کے تحت پاکستان کو ہر سال دی جانے والی امریکی امداد کو صدر امریکہ کی ضمانت سے مشروط کیا گیا تھا ۔اس بات کی شخصی ضمانت کو وزن دینے کیلئے امریکی وفود مسلسل پاکستان آکر اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کی مہم میں کہاں تک کامیابی حاصل کر چکا ہے ۔یہیں ان کا صدر غلام اسحاق خان سے یہ دلچسپ اور تاریخی مکالمہ ہوا تھا ۔پاکستان نے امریکی وفود کو کہوٹہ کا دورہ کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی ۔جب بھی مغرب نے اس طاقت کو چھیننے کی کوشش کی پاکستان نے کبھی مغرب کو جُل دینے کی کوشش کی تو کبھی ڈٹ کر امریکہ کی بات ماننے سے انکار کیا ۔نائن الیون کے بعد امریکہ مزید غضباک ہوگیا اور یہ اصولی فیصلہ کر لیا گیا کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست تھا ۔

مزید پڑھیں:  حساب کتاب