بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ

سال 1959 کے دوران واپڈا کا قیام عمل میں آیا تو اس خود مختار ادارے کے قابل ترین انجینئر صاحبان کی شب و روز محنت سے پانی و بجلی کے شعبہ میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ۔ ہمارا مُلک آزاد ہوا تو اس وقت یہاں قریباً ساٹھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی ۔ واپڈا نے جہاں ڈیمز ، انہار کی تعمیر اور نکاسی آب و سیلاب کنٹرول کرنے میں نمایاں کام کیے وہاں سال 1997 تک بجلی کی پیداواری صلاحیت میں پندرہ ہزار میگا واٹ کا اضافہ کیا ۔ بجلی کے تمام پیداواری ذرائع سے انرجی مکس میں ہائیڈل جنریشن کی شرح زیادہ ہونے کے باعث صارفین کو سستی بجلی مہیا ہو رہی تھی ۔مُلک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو مد نظر رکھتے ہوئے واپڈا نے نئی ٹرانسمیشن لائنز ، نئے گرڈ سٹیشن اور موجود گیس ٹربائن سٹیشن کی کارکردگی بہترکرنے کے منصوبوں پر عمل کرنا تھا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس اہم ادارے کو توڑ تاڑ دیا گیا ۔ ماضی میں ایک نگران وزیر اعظم اور ایک وزیر خزانہ ( بعد ازاں وزیر اعظم ) در آمد کیے گئے جنہوں نے واپڈا میں طے شدہ نقب لگائی۔اس واردات میں سامان اُٹھانے کی بجائے گھر ( مُلک )کے کماؤ بیٹے کو مفلوج کر دیا گیا ۔ پہلے یہ چرچا ہوا کہ واپڈا میں بجلی کا شعبہ مکمل نا کام ہو چکا ہے ، صارفین کو ناجائز تنگ کیا جا رہا ہے ، چوری اور رشوت عام ہے ۔ لہذا 1997 میں واپڈا کے پاور ونگ کو منقسیم کر دیا گیا ، ائریا الیکٹرسٹی بورڈز بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بن گئیں ۔ پانی و بجلی کی وزارت نے ان کمپنیوں کوبراہ راست اپنے کنٹرول میں رکھا جبکہ معاملات چلانے کے لیے فوج تعنیات کی گئی ۔ اسی اثنا میں تیل سے فوری بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آ ئی پی پی ) سے معاہدے ہوئے ، قومی گرڈ کو اس بجلی کی فراہمی اور فروخت میں جنریٹرز کی صلاحیتی قیمت ، قرضوں پر سود ، اصل سرمایہ کی واپسی پر شرح اور نجی ملکیت کے ان جنریٹرز پر اُٹھنے والے متغیر اخراجات بھی شامل تھے ۔ انہی معاہدوں کے تحت مہنگی بجلی کی دستیابی کے دوران تقسیم کار کمپنیوں کی بد انتظامی اور بجلی کی قلت کو وجہ بناتے ہوئے ہنگامی بنیاد پر رینٹل پاور پلانٹس منگوائے گئے جو قلیل مدت میں موجود ذرائع سے بجلی پیدا کرتے ہیں ۔ ہم صارفین کو یہ اُمید پڑی کہ اب بلا تعطل بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں پائی جانے والی بد انتظامی اور دیگر خرابیاں درست ہو جائیں گی ۔ ہم نے دیکھا کہ مُلک بھر میں بجلی پیدا کرنے والی بہت سی مقامی اور بیرونی کمپنیاں متحرک ہوئیں ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ہر چھوٹی بڑی غلطی پر انضباطی کاروائی کا شکار ہوئے ۔ کسی کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ، کوئی جھوٹی سچی شکایت پر ترقی پانے سے محروم رہا ، ملازمین کے ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں تبادلے ہوئے اور خفیہ والے اُن کی ہر حرکت پہ نظر رکھتے ۔ کئی برسوں بعد عسکری قیادت نے ڈسکوز کو خیر باد کہا مگر حالات میں بہتری نہ آئی ، بجلی مہنگی ہوتی گئی ، لوڈ شیڈنگ کا عذاب جاری رہا ، چوری چکاری زیادہ ہوئی ، بقایا جات کی وصولی میں مشکلات اور صارفین کی وہی شکایات ۔
چند اچھے اقدامات بھی ہوئے جن میں آٹو میٹک میٹر ریڈنگ اور صارفین کے مزید اطمینان کے لیے موبائل ریڈنگ کا استعمال شامل ہے ۔ اپنے ماہانہ بجلی کے بل پر میٹر کی تصویر دیکھ کر صارف کو زیادہ یا کم میٹر ریڈنگ کی پریشانی سے بڑی حد تک نجات ملی ۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے حصص صدر ِ پاکستان کے ہاتھ میں ہیں اور اسی باعث کمپنیاں وفاقی وزارت کے تحت کام کر رہی ہیں ۔ ان کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا ہے مگر اس میں پائی جانے والی بہت سی کمزوریوں اور علاقائی نا ساز گار حالات کی وجہ سے مشکل پیش آ رہی ہے ۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کئی اقدامات ہوئے ، نیب کو واجبات کی وصولی کا کام سونپا گیا ، بجلی چوروں کے خلاف مقدمات اورملازمین معطل ہوئے ، باہر سے منظور نظر چیف ایگزیکٹو افسران کی تعیناتی ہوئی ، خیبر پختونخوا کی پیسکو میں پولیس تھانے قائم کیے گئے ۔کچھ حاصل نہ ہوا کہ حکام اصل مرض کا علاج کرنا نہیں جانتے یا وہ نہیں چاہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری طرف بجلی بطور سیاسی رشوت کے کام آتی رہی، پارلیمنٹ کے ارکان کی خاصی تعداد بجلی ہی کی مرہون منت ہے ۔ کمپنی قوانین کے تحت ڈاریکٹرز کے بورڈ تو بنے مگر سیاسی وفاداریاں کام آئیں اور ایسے لوگ بورڈ میں شامل ہوئے جنہیں علم نہیں کہ اُن کی یہاں کیا ضرورت تھی ۔ مہنگی بجلی اور اوپر سے ٹیکس کی بھر مار ، نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ، سبسڈی کا بوجھ اور سیاسی نوعیت کے حکومتی فیصلے ہی گردشی قرضہ میں اضافے کا باعث ہوئے ۔ خود کو بری الذمہ اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مرض کی تشخیص اور علاج کرنے کی بجائے کہیں صارفین کو زیادہ یونٹ بل کرنے کے بہانے کمپنیوں کے ملازمین کو گرفتار کیا جارہا ہے تو کہیں اُن کے محکمانہ تفویض کردہ یونٹ ختم کر کے یہ سمجھا جارہا ہے کہ پاور سیکٹر کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ اصل مسّلہ بجلی کو سستا کرنا ہے جس کے لیے اہل اقتدار کو پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے انجینئر صاحبان کے ساتھ بیٹھ کر اس تکنیکی مسّلہ سے چھٹکارا پانا ہو گا ۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار