نئے سیاسی بحران کے امکانات

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل پرسووموٹو کیس کافیصلہ سناتے ہوئے 18اکتوبر کوالیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کرانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے اوراپنے تازہ فیصلے میں کہا ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرائے جائیں ‘ جبکہ حکومت کوحکم دیا ہے کہ وہ انتخابات کے لئے فنڈزمہیا کرے ‘جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے گورنر خیبر پختونخوا کے فریق بننے سے معذرت کی بناء پرمتعلقہ فریق کے الگ سے عدالت سے رجوع کرنے یاپھر الیکشن کمیشن کو خود فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی ہے ‘ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پرتحریک انصاف کی جانب سے خوشی کا اظہار سامنے آیا ہے جبکہ وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم شہبازشریف کی صدارت میں ہونے والے ا جلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین رکنی بنچ نے آئین اور قانون سے انحراف کرکے فیصلہ دیا ہے ‘ کابینہ نے عدالتی فیصلے پر ہرفورم میں آوازاٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے ‘ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک نئے سیاسی بحران نے جنم لے لیا ہے ‘ کیونکہ حکومت کی جانب سے اس کیس میں فل کورٹ کے قیام کا مطالبہ کیا جارہا تھا بار کونسلز نے بھی یہی مطالبہ کیاتھا جبکہ تین رکنی بنچ نے اس قسم کے تمام مطالبات پرکوئی توجہ دینے کی بجائے اپنافیصلہ سنادیا ‘ اب جس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے نے ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کر دیا ہے ۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ بنچ پر انگلی اٹھ جائے تو جج فیصلہ نہیں کر سکتا ‘ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اس لئے عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں ‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم ملک میں کسی اور کی آمریت کوتسلیم نہیں کرتے توسپریم کورٹ میں بھی کسی کی آمریت کوتسلیم نہیں کریں گے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے تمام جائز مطالبات کو رد کرکے انصاف کی نفی کی ہے’ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی تھی کہ اس معاملے کو اناکا مسئلہ بنانے کی بجائے فل کورٹ تشکیل دیا جائے یہ تاثر نہیں جانا چاہئے کہ کوئی ادارہ کسی کے لئے سہولت کاری کر رہا ہے۔ غرض سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کے ابھرنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں ‘ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ نے آئین میں ایمرجنسی کے آپشن کی بات بھی کی ہے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جب چارججز نے سووموٹو خارج کیا کیا ایسی صورت میں ہونے والا فیصلہ کیا انصاف پرمبنی ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ فل بنچ کی ہر طرف سے ڈیمانڈ آئی ‘ پی ٹی آئی نے بھی کہا فل بنچ پر کوئی اعتراض نہیں تو فل بنچ کا مطالبہ ماننے میں کیا حرج ہے ‘ انہوں نے کہا کہ ایک فتنے نے بڑی محنت سے ملک کو بحران کی طرف دھکیلا ‘ آئی ایم ایف سے معاہدے ہم نے نہیں کئے ‘ امرواقعہ یہ ہے کہ اگرچہ آئین میں ایمرجنسی کاآپشن موجود ہے تاہم باخبر حلقوں کے مطابق ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے صدرپاکستان کی رضا مندی بھی ضروری ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ صدرمملکت موجودہ حالات میں حکومت کی جانب سے اس قسم کی کسی بھی کوشش کوکامیاب کرنے نہیں دیں گے ‘ اس ضمن میں ایک اہم نکتہ سپریم کورٹ کی جانب سے دونوں فریقوں کو باہم مذاکرات کے ذریعے معاملے کونمٹانے کی تجویز بھی سامنے آئی تھی لیکن حکومت نے اسے درخوراعتناء نہیں سمجھا جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی مذاکرات میںخودجانے کی بجائے اپنی ٹیم بھیجنے کی بات کرکے مذاکرات کے عمل کو کمزور کرنے کی کوشش کی ‘ گویا دونوں جانب سے ایک بار پھرہٹ دھرمی کامظاہرہ کیا گیا ‘جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ کرکے معاملے کونمٹانے کی کوشش کی اور اس فیصلے کے بعد نظر بظاہر حکومت کے پاس اس فیصلے کوتسلیم کئے بناء کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا ‘ اس میں بھی قطعی شک نہیں کہ دو صوبوں(فی الحال پنجاب) میں انتخابات کے نتائج ملکی سیاست کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسائل کھڑے کرنے کا باعث بنیں گے کیونکہ دو صوبوں میں انتخابات ہوجائیں تو ہرپانچ سال بعد ایسی ہی کیفیت پیدا ہوگی ‘ اور دونوں صوبوں کی منتخب حکومتوں کو عام انتخابات پراثر انداز ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا اس لئے اگر پورے ملک میں انتخابات ایک ہی روز ہوجاتے تو یہ ”بحران” ٹل سکتا تھا۔بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ جس طرح وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے تو حالات سے نمٹنے کے لئے وہ کونسی جوابی لائحہ عمل اختیار کرتی ہے ‘ جس سے بحران بھی ٹل جائے اور سیاسی اور مبینہ عدالتی تقسیم بھی رک جائے؟

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟