مشرقیات

جو کی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر ایک شخص کھا رہا تھا مسافر جو اپنے گائوں سے چلا اور شہر میں آیا تھا اس نے اپنے ٹھہرنے کے لئے ایک مسجد ڈھونڈی، وہاں پہنچا تو اسے یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ ایک شخص پانی میں بھگو بھگو کر سوکھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہا ہے۔
مسافر اسے غور سے دیکھتا رہا یہ عجیب آدمی تھا اس کے چہرے پر بڑا سکون تھا معلوم ہوتا تھا کہ اس کا دل مطمئن ہے مسافر کو حیرت ہوئی سوکھی روٹی کوئی ایسی نعمت تو نہیں کہ اسے کھا کر کوئی خوش ہو مگر یہ شخص جس اطمینان سے سوکھی روٹی کھا رہا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دستر خوان پر اس وقت دنیاکے بہترین پھل یا بہترین پکوان بھی ہوتے تو اسے اس سے زیادہ خوشی نہ ہوتی۔
خوب یاد رکھئے نہ دل سا دوست نہ دل سا دشمن یہی ہے جو انسا ن کو بناتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی ہے اگر اسے حسد کا روگ نہ لگے اور لالچ کی بیماری نہ آن گھیرے تو دل سے بڑا دوست کوئی اور نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خوبی دی ہے مگر ذرا مشکل سے یہ خوبی پیدا ہوتی ہے یہ ہے قناعت جو مل جائے اسی پر دل خوش ہو جیسا مل جائے اسی پہ دل خوش ہو تو ہزاروں مصیبتیں ٹل جاتی ہیں اور سکون ہی سکون میسر آتا ہے قناعت کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی محنت چھوڑ دے قناعت کا مطلب ہے محنت کے بعد جو مل جائے اس پر دل خوش ہو جہاں قناعت نہ ہو گی وہاں زندگی دکھی ہو جائے گی کبھی وہ اپنے سے اچھوں کو دیکھ کر کڑھے گا کبھی ان کی ریس میں وہی آرام ‘ آسائش حاصل کرنے کے لئے دین ایمان کا سودا کر بیٹھے گا رشوت لے گا چور بازاری کرے گا کم تولے گا جھوٹ بولے گا ایسا ہی کوئی نہ کوئی دھندہ کر بیٹھے گا۔
وہ مسافر جو مسجد میں داخل ہوا تھا ایک گائوں کا رہنے والا تھا، اپنے حالات سے بہت پریشان ہوا تو کسی نے اس سے کہا گائوں چھوڑ شہر جا اور وہاں جا کر اپنے خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہو اور انہیں اپنی مشکلات بتا اللہ چاہے تو تیرا کام بن جائے گا۔
اپنی مصیبتوں کے ٹلنے کے میٹھے میٹھے سپنے دیکھتا وہ شہر پہنچا تو اسے یہ منظر دکھائی دیا وہ شخص بھی اس مسافر کی طرح مصیبت کا مارا معلوم ہوتا تھا مگر اپنی مصیبت پر وہ مسافر کی طرح مرتا اور کڑھتا نہیں تھا مسافر اس شخص کو ایک نظر دیکھ کر کچھ مایوس ہو گیا اور اداس سا ایک کونے میں جا بیٹھا یہ دیکھ کر وہ شخص اس کے پاس گیا بولا۔۔۔ بھیا ! یہ تم اتنے اداس کیوں ہو گئے؟ جب مسجد میں آئے تھے اس وقت تو تم اتنے اداس نہ تھے مسافر نے کہا۔۔۔ بھیا! آفت کا مارا ہوں شہر اس لئے آیا تھا کہ خلیفہ کے پاس جا کر اس سے کچھ مدد طلب کروںگا لیکن جب میں نے دیکھا کہ خلیفہ کے اپنے شہر کے لوگوں کو ڈھنگ کی روٹی نہیں ملتی تو دل بیٹھ گیا یہ سن کر وہ جو کی روٹی کھانے والے نے مسافر کے حالات پوچھے حالات سن کر اسے دلاسا دیا اپنے ساتھ لے چلا بیت المال سے اسے کچھ دلا کر رخصت کیا۔
حکایت بیان کرنے والے نے کہا کہ یہ حضرت علی کے دور کا واقعہ ہے وہ جو کی روٹی کھانے والے امیر المومنین حضرت علی تھے ہماری تاریخ بھی عجیب تاریخ ہے ہمارے بڑوں کی سادگی کے کیا کیا نمونے پیش کرتی ہے۔
نمونے پیروی کے لئے ہوتے ہیں کاش ہم ان جلیل القدر ہستیوں کی پیروی کرسکیں۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے