جوش نہیں یہ ہوش کا وقت ہے

طبی اداروں میں رہتے ہوئے ہمیں کافی چیزوںکا احساس تو ہوتاہے تاہم غیر معمولی حالات سے ہم اپنے معمولات کو متاثر نہیں ہونے دیتے کیونکہ طبی عملہ نے صحت مند بھی رہنا اور ہوش میں بھی رہنا ہے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوتاہے مریضوں یا ان کے لواحقین کی طرح ہم کبھی بھی جذبات سے کام نہ لیںاور ایک امید کے ساتھ آخری وقت تک مریض کی صحت کے لئے لڑتے رہتے ہیں ۔کئی لوگوں کو لگتاہے کہ طبی عملہ تو کچھ کرہی نہیں رہا کیونکہ یہ مریض کے لواحقین کی طرح جذباتی نہیں ہورہاہوتا، وقت پر کھاناکھارہاہے ، مسکرارہاہے ، آپس میں باتیں کررہا ہے ، نماز پڑھ رہا ہے۔ اور تو اور آرام بھی کررہاہے ۔ہمیںسب نظر آرہاہوتاہے کہ طبی عملہ کی ہر ہرحرکت پر مریض اور لواحقین کیسے نظر رکھے ہوئے ہیں اور کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، اُن کا بس چلے تو طبی عملہ کو کچھ بھی نہ کرنے دے۔ لیکن اس سب کے باوجود جب ان کا مریض صحت مند ہوجاتاہے تو انہیں احساس ہوتاہے کہ یہ جذبات کا نہیں بلکہ ہوش میں رہنے سے ہی ممکن ہوا۔طبی عملہ کھائے گا پیئے گا تو مستعد اور فعال رہے گا، نماز پڑھے گا تو اسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور مریض کی صحت یابی کے لئے اس کے ہاتھ میں شفاء بخشی جائے گی۔
کچھ یہی حال صحافی کا بھی ہوتاہے چاہے وہ کارکن صحافی ہو، دفتر میں کام کرنے والا ہویا ہماری طرح تجزیہ نگار ہمیں ہر حال میں جذبات یا ذاتی لگائوکو پس پشت ڈال کر پاکستان کی خاطر سوچنا ہوتاہے عوام کو حقائق بغیر کسی جذبات کے پہنچانے ہوتے ہیں اور عوام کو اپنے تجربہ اور دوراندیشی سے آنے والے حالات کے بارے میں آگاہ کرنا ہی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان جن مشکل حالات سے گزر رہاہے اور غریب عوام کون کون سے مسائل میں ڈوبے ہوئے ہیں ان سب کا ادراک تو بخوبی ہوتاہے لیکن کبھی بھی جذبات میں بہہ کر کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے کہ پھر پچھتاناپڑے اور نہ ہی ایسی تحریریں لکھتے ہیں کہ عوام ہوش کی بجائے جوش سے کام لے۔ صحافی کو ماضی کا بھی پوراپورا علم ہوتاہے اور آنے والے وقتوں کا ادراک بھی اس کی خوبی ہے ۔ہمارے قارئین دیکھ رہے ہوتے ہیںکہ ہر قسم کے حالات میں صحافی حضرات اپنے فرض کو پوری تندھی کے ساتھ نبھارہے ہوتے ہیں عوام کی طرح گرم و سرد موسم کے تھپیڑوں کو سہہ کراپنے فرائض منصبی پورے انہماک کے ساتھ اداکرنا ہی ان کی شان ہے ۔ اسی طرح دفتروں میں بیٹھنے والی ٹیم اور تجزیہ نگار و کالم نگار جذبات سے کچھ اوپر ہوتے ہوئے اصل حقائق عوام تک پہنچارہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ انکو پرامن رہنے اور صلاح مشورہ سے ان حالات سے نبرد آزماہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عملہ ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو براہ راست سہہ رہے ہوتے ہیں بہت کچھ کرسکنے کی قوت و ہمت ہونے کے باوجود عوام کو پرامن رہنے کی حتی المقدور کوشش میں لگے رہتے ہیں عوام کے جزباتی ہونے کے باوجود ان پر ربر کی گولیا اور آنسو گیس برسا کر انہیں منتشر کرنے کی اپنی پوری سعی کررہے ہوتے ہیں ۔ آج کل تو سب کچھ میڈیا اور اس سے بھی زیادہ سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا جا رہا ہوتاہے اور گھر میں بیٹھے لوگوں کو بھی سمجھ آرہاہوتاہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لوگ کتنا تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں اور جذبات میں بہتی ہوئی عوام اور بالخصوص ہمارے نوجوان کیا سے کیا کررہے ہوتے ہیں پولیس کی وردیاں تک پھاڑدیتے ہیں انہیں گالیاں دیتے ہیں اور انہیں برابھلا کہنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود پولیس اور دیگر ادارے انہیں مسلسل جذبات کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح یہ مظاہر ہ کرنے والے جذبات میں بہہ رہے ہیں اگر اس کے جواب میں پولیس و دیگر اداروں کے کارکن بھی جذبات کا اظہار کردیں تو بات بہت بگڑجائے گی۔ اور پھر پلوں کے تلے سے اتنا پانی بہہ جائے گا کہ اس کا تدارک بڑے بڑے لیڈران بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اتنے بڑے نقصان کا بعض اوقات میں ازالہ ناممکن ہوتاہے چاہے وہ سرکاری اداروں کی توڑ پھوڑہو، املاک اور گاڑیوں کوجلاکر بھسم کردینے کا عمل ہو یا پھر انسانی جانوں کا ضیاع ہوان کا پھر سے واپس آنا اتنا آسان نہیں بلکہ ناممکن ہوتاہے۔
اب بات اگر سیاسی جماعتوں کی جائے تو انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنے تمام کارکنوں اور چاہنے والوں کی پوری تربیت کریں انہیں بتایا جائے کہ ان کے فرائض کیا ہیں اور ان کی حقوق کیاہیں ہر کارکن کو اپنے فرائض بھرپور پورے کرے اور حقوق کے لئے خوب لڑنا چاہئے ۔تاہم ان کی تربیت یہ ضروری ہے کہ حقوق کے حصول کے لئے انہوں نے کس حد تک جانا ہے اور اگر بد قسمتی سے حقوق کیلئے کسی قسم کااحتجاج کرنا ہے تو اس کی حدود کیا ہوں گی۔ ان کے حقوق کسی ایک ادارہ کی وجہ سے نہیں مل رہے تو سب سے پہلے مناسب ترین طریقہ اپنایا جائے ، اس کے بعد مناسب وقت تک یاددہانی کروانے کے لئے آتا جاتارہے۔ اگر بات بہت آگے بڑھ جائے اور احتجاج ریکارڈ کروانا بہت ضروری ہوجائے تو جیسے ترقی یافتہ ممالک میں احتجاج کرنے کے طریقے ہیں اور جیسے مہذب اقوام اپنے احتجاج ریکارڈکرواتے ہیں ویسے ہی کرنا چاہئے اور ہر ممکن پر امن رہ کر اپنا موقف مقتدر اداروں تک پہنچایا جائے۔ اس بات کا خصوصی خیال رکھاجائے کہ بغیر کسی نقصان کے اپنا موقف ان تک پہنچایا جائے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر جن اداروں اور عام لوگوں سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں ان کو اور ان کی املاک کو کوئی نقصان نہ پہنچایاجائے۔
اس کے برعکس ہمارے وطن میں دیکھنے میں آیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو کوئی بھی روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا اور ان کے سامنے جو کچھ آتا ہے اسے توڑپھوڑرہے ہوتے ہیںان میں سرکاری املاک بھی شامل ہیں ۔کاروباری لوگوں کے کاروبار کو توڑپھوڑ کررکھ دیتے ہیں ان کا بس چلے تو آگ لگا کر سب کچھ بھسم کردینے میں بھی کچھ عار نہیں سمجھتے۔ دیکھا جائے تو کاروبار ی حضرات اور عام امیر لوگوں نے تو اس کی انشورنس کروائی ہوتی ہے اور وہ اپنے نقصان کی تلافی وہاں سے کرلیتے ہیں لیکن یہاں تو عام شہری کی گاڑی تباہ و برباد کردی جاتی ہے اور تو اور غریب آدمی کی موٹرسائیکل کو بھی آگ لگادی جاتی ہے وہ بے چارہ نہ تو ان بلوائیوں کو روکنے کے قابل ہوتاہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کے سامنے درخواست کرسکتاہے کہ اس کے نقصان کی بھروائی کی جائے وہ بے چارہ ساری زندگی کی پونجی کسی اور کی غلطی یا ناسمجھی کی وجہ سے گنوابیٹھتاہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام