لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

وطن عزیز میں بار بار آنے والے ایک طرح کے سیاسی حالات کی طرح ان دنوں بھی سیاست اپنے آپ کو دہرا رہی ہے آج کی سیاست بھی لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو کا نمونہ نظر آتی ہے ۔ سیاست کی یہ شکست وریخت اور اعادہ بغیر کسی خاص تبدیلی اور تجرد کے جاری ہے کرسی چھیننے اور کرسی حاصل کرنے کے لئے ہر جائز وناجائز حربوں کا استعمال پاکستان کی سیاست کا وہ المیہ ہے جوکئی دہائیوں پر محیط ہے ۔ آج کی حلیف جماعتیں کبھی سخت حریف ہوا کرتی تھیںاب ان کاوزن ایک پلڑے پر ہے اور سب مل کر ایک اور مقبول جماعت کو پچھاڑنے کی تگ و دو میں ہیں۔کئی دہائیوں تک یہی روش برقرار رہنے کے باوجود، جہاں آج فاتح کل غالب ہے، اور اسی طرح ایک نہ ختم ہونے والے گول چکر میں گھوم رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ سویلین قیادت اپنے مخالفین کی بدقسمتی پر خوش ہونے کی خواہش کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ بلکہ وہ اس قلیل مدتی فوائد حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی اپنی پسندیدہ حیثیت کتنی عارضی ہو سکتی ہے۔مسلم لیگ نون کے رہنمائوں نے تو اسے اپنا وتیرہ ہی بنا لیا ہے ۔ گزشتہ روز بھی مسلم لیگ( ن )کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے اپنی تقریر کے دوران کئی بار پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ( ن) کو رلا دے گا وہ خود اپنے بل میں چھپ کر آنسو بہا رہا ہے۔9مئی کو ہونے والے فسادات اور آتش زنی کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے مسٹر خان کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھانے سے گریزنہیں کیا انہوں نے مزید کہاہم انہیں ایک مثال بنائیں گے حالانکہ وہ اور ان کا خاندان اپنی جماعت سمیت ان حالات سے گزر چکی ہیں اور وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ کس طرح ان کے اپنے والد، تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو ہر بار اقتدار سے ہٹانے کی ایک ‘مثال’ بنایا گیا، حال ہی میں ایک قابل اعتراض عدالتی عمل کے ذریعے، جس کی وجہ سے وہ عوامی انتخابات کے لئے نااہل قرار پائے۔ان کو نااہل قراردے کرخاموش کر دیا گیا۔یہاں تک کی ان کی میڈیا کوریج پر بھی سختی سے پابندی عائد کرکے اس پر پوری طرح عملدرآمد بھی کروایاگیا اب پی ٹی آئی کے رہنما کی باری ہے کہ اسے گمنامی کی طرف دھکیل دیا جائے اور مسلم لیگ(ن)کی قیادت عروج پر ہونے پر مطمئن ہے، حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ اس عہدے کی حساسیت ہے۔جب مسٹر خان برسراقتدار تھے تو ان کی حکومت نے اس وقت کی سیاسی حزب اختلاف کے ساتھ انتقامی کارروائیوں اور دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس وقت زیر عتاب آنے والوں کے پاس کچھ باقی نہیں چھوڑا گیا۔یہ کوئی سطحی کھیل کا میدان نہیں تھابلکہ ریاست کے تمام مشینری ان کے خلاف صف آراء تھی۔ پی ٹی آئی آج خود کو ایسی ہی پوزیشن میں پاتی ہے جس سے کبھی آج کی حکمران جماعت مسلم لیگ نون دو چار تھی۔تاہم مسلم لیگ(ن)اگرموخرالذکر کے زوال پر کم نظری کا مظاہرہ کر رہی ہے، تو پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بھی اس بات کی کوئی خبر نہیں ہے کہ انتقام کی سیاست کیسے چلتی ہے، اس بات کے بارے میں کہ چیزوں کی بڑی اسکیم میں کون ہارتا ہے اور کس کو فائدہ ہوتا ہے۔پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کردی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہوجاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہوگی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا۔کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہوچکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔چند روز قبل پی ٹی آئی کے رہنماء حماد اظہر نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا مقصد حقیقی فیصلہ سازوں کے لئے ہے نہ کہ کٹھ پتلیوں کے لئے۔ کئی بار مسٹر خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں ملک چلانے کی مکمل آزادی نہیں ہے۔ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے طاقت ہمارے ساتھ نہیں تھی، انہوں نے ایک موقع پر کہا۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کی ڈور بھی کہیں اور سے کھینچی جا رہی تھی تو پھر اس سے بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں اور مئی2006میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دستخط شدہ میثاق جمہوریت کو کامیاب بنانے کے لئے ایک اور میثاق جمہوریت کی طرف بڑھیں۔اس سے تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یکساں کھیل کا میدان یقینی ہو جائے گا اور جمہوری عمل کی تجدید ہو گی جو بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں میں خراب ہو گئی ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی