معاشی خطرات کے گہرے ہوتے بادل

امریکی جریدے بلوم برگ نے خبردار کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف )کا پروگرام رول اوور نہ ہوا تو پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ ہے جبکہ ملکی معاشی ماہرین اورتجزیہ کاروں نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے ختم ہونے میں صرفچند دن رہ جانے کے باوجود پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں ڈیڈ لاک برقرار ہے اور آئی ایم ایف کے 9ویں جائزہ کے امکانات معدوم نظر آرہے ہیں ۔بلوم برگ کے مطابق 30 جون کو ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی قسط نہ ملنے کا خدشہ بڑھا ہے۔ آئی ایم ایف کو ٹیکس بیس نہ بڑھانے اور ایمنسٹی سکیم پر اعتراض ہے۔ فنڈ پروگرام کے بغیر مہنگائی اور شرح سود توقعات سے زیادہ بڑھے گی۔ ڈالر کی قلت نئے مالی سال کی پہلی ششماہی میں شدید اور طویل ہوگی، پروگرام رول اوور نہ ہونا ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈ پروگرام کی عدم بحالی معاشی نمو پر بھی اثر انداز ہوگی۔بلوم برگ کا کہنا ہے کہ نئے پروگرام پر اکتوبر انتخابات سے پہلے پیش رفت مشکل ہے، دسمبر سے پہلے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام مشکل ہوگا۔ نئے مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کو دوست ملکوں کی مدد درکار ہوگی، حکومت کا اپنا آدھا بجٹ سود پر خرچ کرنے کا منصوبہ ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طلب دبانے اور زر مبادلہ کی کفایت شعاری سے استعمال کیلئے شرح سود بڑھانا ہوگی، بلند شرح سود سے حکومت کا سود کا خرچ بڑھے گا۔دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کب تک قرضے لیتا رہے گا؟ ہمیں قرضوں سے جان چھڑانا ہوگی، قومیں وہی کامیاب ہیں جو قرض لے کر اسے کامیابی کے ساتھ واپس کر دیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان پر قرضوں کا بہت بڑا بوجھ ہے، 75 برس میں مختلف ادوار میں قرضوں کی بھرمار کی گئی، پاکستان کب تک قرضے لیتا رہے گا؟ ہمیں قرضوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ امید رکھیں پاکستان جلد مشکلات سے نکل آئے گا انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے، چین سے ایک ارب ڈالر آچکے۔اس صورتحال میں یا توحکومت واضح اعلان کرکے یہمخمصہ ختم کرکے کہ آئی ایم ایف پروگرام کا متبادل تلاش کرلیاگیا ہے یا پھر قرض پروگرام کوحتمی شکل دینے کی سعی کی جائے نیمے دروں نیمے بیروں کی پالیسی تذبذب کا باعث بن رہا ہے۔آئی ایم ایف کے پاس موجودہ توسیعی فنڈ سہولت(ای ایف ایف) کی میعاد ختم ہونے میںایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ایک واضح منصوبہ کا اعلان کرے کہ وہ آنے والے مہینوں میں ڈیفالٹ کے خطرے کو کیسے روکے گی۔امر واقع یہ ہے کہ حکومت کے پاس زرمبادلہ کی آمد کے ذرائع کو بہتر بنانے پر کام کرنے کے لیے ایک سال کا وقت تھا، اور اب تک کی کوششیں فوری طور پر ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔صرف چین سے حالیہ ایک بلین کے وعدوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔کرنٹ اکائونٹ بیلنس کو سازگار رکھنے کے لیے درآمدات کو کم سے کم رکھنے کے ساتھ افراط زر میں اضافہ جاری ہے۔ اگرچہ اس نے ہماری کم از کم زرمبادلہ کو اپنے خزانے میں رکھنے میں مدد فراہم کی ہے، لیکن اس سے صنعتی پیداوار پر جو تباہ کن اثر پڑا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ دیکھتے ہوئے کہ حکومت نے گزشتہ ایک سال آئی ایم ایف پروگرام پر سست روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف کیا ہے، اس وقت موجودہ انتظامیہ کے لیے معاشی بحران کو حل کرنا ناممکن ہے۔ وزیر خزانہ اور کابینہ اس خطرے کو فی الوقت ٹالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ(ن)دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو آئی ایم ایف کو واپس لانے کے لیے سخت شرائط کے ساتھ نیا منی بجٹ سامنے آئے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو موجودہ سرکردہ جماعت اپوزیشن میں بیٹھ سکتی ہے صورتحال جو بھی ہو ہی نئی حکومت کومشکلات کا سامنا ہو گا اور ایسا کرنا حکمران جماعتوں کی سیاسی طور پر مصلحت سہی لیکن ملک کے لئے تباہ کن اور عوام کے لئے مزید مشکلات کا باعث ہوگااس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے چار سالوں میں معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ سب کا مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم کا صرف سوال کرنا اور وزیر خزانہ کی غیر حقیقت پسندانہ اور مبہم یقین دہانی کافی نہیں ایسا کرکے وہ وقت گزار کر انتخابات میں جاتے ہوئے مشکلات کا ٹوکرا نگران حکومت کے سر رکھ کر تو جا سکتے ہیں اور بعدازاں آنے والی حکومت کے لئے اسی طرح کی باوردی سرنگیں بچھا ئے جا سکتے ہیں جو ان کی گزشتہ حکومت نے جزوی طور پر آنے والی حکومت کے لئے بچھائیں اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصت ہونے والی حکومت نے اپنے بعد آنے والوں کے لئے بچھائیں آخر معاشی بارودی سرنگیںبچھانے کی بدعت کب تک جاری رہے گی اور حکمران اپنی سیاست پر حکومتی فیصلوں عوامی مفاد اور ملک و قوم کے مستقبل کو کب ترجیح دینے لگیں گے۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے