صوبائی بجٹ ‘ ہزاروں اسامیوں کا خاتمہ

بجٹ تفصیلات کے مطابق صوبائی حکومت نے اگلے چار ماہ میں 462 ارب 42 کروڑ 40 لاکھ روپے خرچ کا تخمینہ لگایا ہے ‘جن میں 350 ارب 4 کروڑ 40 لاکھ روپے جاری اخراجات جبکہ 112 ارب 38 کروڑ 50 لاکھ کے ترقیاتی اخراجات شامل ہیں ‘ اس سے پہلے نگران وزیر اعلیٰ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی گئی ‘ سرکاری ملازمین کے لئے گریڈ سولہ تک تنخواہوں میں 35فیصد ‘ گریڈ 17 سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30فیصد جبکہ پنشن میں 17.5 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ‘ بجٹ میں گزشتہ تین سال سے پڑی خالی اسامیاں ختم کر دی گئی ہیں ‘ ٹیکسوں کی موجودہ شرح برقرار رکھی گئی ہے ‘ کم سے کم اجرت 32 ہزار مقرر کی گئی ہے۔ بجٹ میں 517 ارب روپے کی ریکارڈ کمی ‘ خسارہ چار ارب رہا ‘ خسارہ اور بجٹ میں کمی کی بڑی وجہ وفاق سے رقوم کی عدم ادائیگی کو قرار دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے ہیں ‘ نگران حکومت کے دور میں سٹیٹ بنک سے قرض لینے کا عمل رک گیا ہے کیونکہ صوبائی حکومت اپنی آمدن کے مطابق اخراجات برقرار رکھے ہوئے ہے ‘ مشیر خزانہ کے مطابق کہ ماضی میں صوبائی حکومت ماہانہ تیس سے ساٹھ ارب روپے سٹیٹ بینک سے لے کر اپنے اخراجات پورے کرتی تھی جس کی مد میں سود کی ادائیگی بھی کی جاتی تھی تاہم جب سے نگران حکومت آئی ہے اس مد میں ایک روپیہ بھی نہیں لیاگیا اور فروری سے اب تک سٹیٹ بینک سے اوور ڈرافٹ کی مد میں قرض کی رقم صفر ہے’ جہاں تک صوبائی بجٹ کا تعلق ہے تو نگران حکومت نے صرف چار ماہ کا بجٹ پیش کرکے ملک میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئینی تقاضوں کا احترام کیا ہے کیونکہ اگر اکتوبر میں عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں جو آئینی تقاضا ہے ‘ تو اس کے بعد صوبے میں قائم ہونے والی حکومت ہی اس بات کی مجاز ہو گی کہ وہ اپنے منشور اورعوام کی ا منگوں کے مطابق سال کے بقیہ آٹھ مہینے کے لئے ترقیاتی پروگرام پرعمل درآمد کے لئے تخمینہ پیش کرکے اسے آگے بڑھائے ‘ اس ضمنی میں ان تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا بھی فرض ہے کہ وہ انتخابی میدان میں اترنے سے پہلے اپنا سماجی ‘ سیاسی ‘ اقتصادی اور معاشی پروگرام اور عوام کے سامنے پیش کرے اور انہیں بتائے کہ وہ صوبے کو کس طریقے سے خوشحالی اور ترقی کی راہ پرگامزن کرسکتی ہیں اس سے جہاں سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد اس بات کی پابندی ہو جائیں گی کہ اس کے بعد وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے جانے والے وعدوں کو بھلانے کی کوشش نہیں کریں گی جبکہ عوام کو بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھ کر انہیں ووٹ دینے پر آمادہ کیا جا سکے گا ‘ ان سیاسی منشوروں میں اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہئے کہ حکومت سازی کے عمل میں اکثریت سے کلی طور پر محروم رہ جانے اور دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحادی یا مخلوط حکومت بنانے میں دوسری جماعتوں کے منشوروں پر کس حد تک اتحاد و اتفاق کو ممکن بنایا جائے گا۔ جہاں تک سٹیٹ بینک سے قرضے کو صفر کرنے کے اقدام کا تعلق ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے ‘ کاش ہماری منتخب حکومتیں بھی فضول خرچیوں سے اجتناب کرتے ہوئے بلاوجہ قرضے حاصل کرکے اللوں تللوں پر ضائع کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتیں تو صوبے کو قرضوں میں ڈبو کر زیر بار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ‘ گزشتہ تین سال سے خالی پڑی ہوئی ہزاروں اسامیوں کو ختم کرنے کے دو پہلو ہیں ‘ ایک تو یہ کہ یہ اسامیاں یقینا اضافی ہوں گی جن کی تخلیق سیاسی بنیادوں پر کرکے ان پرسفارشیوں کوبھرتی کیا جاتا ہو گا ‘ یا پھر جیسا کہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اسامیاں منتخب ارکان اسمبلی کوکوٹہ سسٹم کے تحت ریوڑیوں کی مانند بانٹ کر ان کو اپنی پسند نا پسند کے کلئے کے تحت بھرتی کے مواقع دیئے جاتے رہے ہوںگے جبکہ بعض مبینہ الزامات کے تحت اسامیاں”قابل فروخت” کے زمرے میں بھی شامل کی جاتی تھیں ‘ تاہم اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے ‘ لیکن اضافی ہر صورت اضافی ہی کہلائے گی اور بلاوجہ اسامیاں تخلیق کرکے صوبائی خزانے پر بوجھ میں اضافہ ہی کی جاتا ہے ‘ اس لئے اگر گزشتہ تین سال سے خالی پڑی ہوئی اسامیوں کے پر نہ ہونے سے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر کوئی ا ثر نہیں پڑا تو پھر ان اسامیوں کو ختم کرنے کے مثبت نتائج برآمد ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے ‘ رہ گئی بات صوبے کے اخراجات پورے کرنے میں وفاق کی جانب سے تعاون نہ کئے جانے کی ‘ تو صوبے کے اربوں روپے کے بقایا جات کے حصول کے لئے وفاق سے نہ صرف نگران حکومت بلکہ سابق پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی مسلسل رابطہ کرنے کے باوجود ادائیگیوں میں تاخیر کی جاتی ہے جس سے صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘ بہرحال اب تو نگران حکومت دم رخصت پر ہے اور انتخابات کے انعقاد کے بعد منتخب حکومت ہی سارے معاملات سنبھالے گی اور صوبے کے لئے مالی سال 2023-24 کی بقیہ مدت کا بجٹ پیش کرکے اپنا کردار ادا کرے گی۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی