ناکامی کاغصہ

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف معاہدے میں ناکامی سے متعلق سوال پر غصے کے اظہار سے ناکامی اور نفسیاتی طور پر دبائو کی نشاندہی ہوتی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیرخزانہ آئی ایم ایف معاہدہ کی ناکامی سے متعلق سوال پر غصے میں آگئے۔ صحافی کے آئی ایم ایف معاہدہ میں ناکامی سے متعلق سوال دہرانے پر اسحاق ڈار آپے سے باہر ہو گئے اور کہا کہ تم جیسے کچھ لوگ سسٹم میں ہیں، جس پر صحافی نے کہا کہ ہم تو سسٹم کا حصہ نہیں ہیں، ہم تو صرف سوال کرتے ہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وہ اس ضمن میں بار باربات چیت کرتے ہیں اور صورتحال کی تصویر پیش کرتے ہیں مگر ان کے استدلال میں چونکہ تشنگی سی ہوتی ہے جوسوالات کا باعث بنتا ہے وزیر خزانہ اس سوال کے جواب میں جھنجھلاہٹ کے اظہار کی بجائے اپنی کسی گفتگو اسمبلی میں اظہار خیال یا پریس کانفرنس کا حوالہ دے کر آگے بڑھ جاتے یا پھر خاموشی اختیار کرتے تو معاملہ یہ رخ اختیار نہ کرتا بہرحال قطع نظر اس واقعے کے گزرتے وقت کے ساتھ آئی ایم ایف سے معاملت نہ ہونا سنگین مسئلہ ہے حکومت ایک دن پلان بی اور دوست ممالک بالخصوص چین سے دستگیری کا عندیہ دیتی ہے تو دوسرے دن آئی ایم ایف سے مذاکرات و معاملت کی مساعی میں اہم ممالک کی مدد کے حصول کی سعی میں دکھائی دیتی ہے جس سے ان کے دوسرے تاثر کی نفی ہوتی ہے بہرحال معاملات کاحل بہرحال آئی ایم ایف سے معاملت پر ہی شاید نکل آئے گو یہ بھی کوئی اچھی صورت نہ ہو گی لیکن اسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق نہ بھی لیا جائے تب بھی حصول قرض کے بعد کی مشکلات کافی زیادہ ہوں گی اور عدم حصول کی مشکلات کی صورتحال اس سے بھی تباہ کن ہو گی۔وزیر خزانہ غالباً گویم مشکل و نہ گویم مشکل کی اس صورتحال کے باعث گرمی کھا گئے اس وقت پٹرولیم کی دو بین الاقوامی کمپنیاں اپنے حصص فروخت کر رہی ہیں موٹر کاریں بنانے والی دو کمپنیوں نے پیداوار سے ہاتھ اٹھا لیا ہے ملک میں نئی گاڑیوں کی خریداری تقریباً تقریباً ختم ہوچکی ہے اب دوا ساز بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی کاروبار سمیٹنا شروع کردیا ہے یہ سب وہ حالات ہیں جو خدانخواستہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں ۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں منفی کاروبار کا رجحان غالب ہے ۔ اسٹاک کاروبار کا تعلق دراصل ملکی حالات سے براہ راست ہوتا ہے۔ حالات مستحکم ہوں تو سرمایہ کاری بڑھتی ہے اور ابتر ہوں تو سرمایہ کاری کا فقدان اسٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے مایوس کن اعداد و شمار اور آئی ایم ایف بیل آئوٹ پروگرام میں تاخیر وہ عوامل ہیں جو مارکیٹ میں نظر آنے والی مندی کا باعث ہیں۔ ترسیلات زر اور برآمدات دونوں میں کمی کے بعد پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 21فیصد تک گر گئی ہے۔ معاشی بے یقینی کی صورت حال اور خاص طور پر بجٹ کے بعد مارکیٹ میں سرمائے کا انخلا دیکھنے میں آرہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومتی کوششیں مطلوبہ نتائج کے حصول میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو رہیں۔ سرمایہ دار ملک میں معاشی بے یقینی کی سی کیفیت کے باعث سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔کسی بھی ملک میں برآمدات میں 14.72 فیصدکا سکڑائو خطرناک معاشی بحران کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے اس وقت موہوم امیدصرف پاکستان میںٹیکسٹائل کے محاذ پر محض معمولی اضافہ ہے تولیوں کی مانگ میں کچھ قدرے مثبت اشارے ملے ہیںتاہم، جب سال بہ سال موازنہ کی بات آتی ہے، تو ٹیکسٹائل کی صنعت ایک تاریک تصویر پیش کرتی ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں سال بہ سال 20 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں 21 فیصد کمی اور بنیادی ٹیکسٹائل میں 19 فیصد کمی واقع ہوئی۔یہ کہ سرکردہ برآمدی صنعت تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ بناتی ہے- مزید پریشانیوں میں اضافہ کرتی ہے۔ جیسا کہ بنگلہ دیش، ویت نام اور پڑوسی ہندوستان جیسے ممالک نے بڑے ڈیزائنرز کے لیے ایک خاص منزل بننے کے لیے اپنی پچ کو مکمل کر لیا، ہماری حکومت ابھی تک غیر ملکی ذخائر کے پہلے سے ہی ختم ہونے کے سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کمی متعدد عوامل کی وجہ سے ہوئی ہے جس میں توانائی کی بڑھتی قیمت، خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمت، اور عالمی اقتصادی سست روی شامل ہیں۔ مجموعی اثرات پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ٹیکسٹائل کی تیزی سے سکڑتی ہوئی برآمدات معیشت کے پہلے سے دبے زخموں کو کیوں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ایک اہم وجہ خام مال کی عدم دستیابی ہے۔ صنعت ملازمین کو کم کرنے پر مجبور ہے کیونکہ خام مال کی کمی اور پیداواری لاگت میں اضافہ کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی، حالیہ سیلابوں کی وجہ سے، ایک اور مصیبت ہے۔ نتیجتًا بہت سے یونٹس یا تو پیداوار بند کر چکے ہیں یا مسابقت میں رہنے کا عزم کھو رہے ہیں۔ چھانٹیوں کے باعث لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کو خطرہ ہے حکومت نے خام مال کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کے اجرا کو مشکل بنا دیا ہے۔ توانائی کے نرخوں پر رعایت واپس لینے سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی پالیسی 2020-25 کے مطابق رواں مالی سال کے لیے ٹیکسٹائل کی برآمدات کا ہدف 25 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے لیکن نوشتہ دیوارپر تحریر کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس بارے میں اندازہ لگانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ٹیکسٹائل کا شعبہ ہماری برآمدات کا بڑا سہارا متصور ہوتا ہے باقی سرمایہ کاری اور صنعتوں کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے نیز ملکی سیاسی عدم استحکام اور عدلیہ و حکومت محاذ آرائی بھی کوئی راز کی بات نہیں ایسے میں اس امر کا از خود سوال اٹھتا ہے کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا بہتر ہوگا کہ ان خدشات اور سوالات کا جواب دے کر مطمئن کیا جائے گرمی کھانا کسی سوال کا جواب اور مسئلے کاحل نہیں موسم ویسے بھی گرم ہے۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے