ہم بھی حیران رہ جائیں گے

حال ہی میں بی ایس کی دو ضم کلاسوں کو اسلامیات پڑھائی جن میں کُل ملا کر ساڑھے چار سو سے زیادہ بچے تھے، آپ جتنی بھی کوشش کر لیں اتنی بڑی تعداد کے ساتھ پڑھانے میں انصاف کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے، خیر میں نے بڑی محنت سے بچوں کو پڑھانے کی اپنی سی کوشش کی، پورا سمسٹر میں ایک دن بھی تاخیر سے نہیں گیا، دو یا تین دن چھٹی کی تو بروقت بچوں کو اطلاع دی اور دوسرے استاد کو کلاس میں بھجوایا بھی، کتاب سے کبھی نہیں پڑھایا، تعلیم سے کیا مراد ہے، علم اور معلومات میں کیا فرق ہے، تعلیمی نظام کے مسائل کیا ہیں، خود آگاہی بطور انسان اور بطور طالب علم کی کیا اہمیت ہے، ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، ہماری زندگی میں اسلام کی کیا اہمیت ہے اور مذہب سے متعلق اہم اہم مسائل کیا ہیں، یہ اور ایسے دیگر موضوعات کی وضاحت کے بعد نصاب میں شامل مختلف موضوعات کی اس طرح وضاحت کی کہ بچوں سے کہا کہ اہم نکات لکھتے جائیں، اور میری گفتگو کو ریکارڈ بھی کرتے جائیں، گھر جا کر اپنے نکات سامنے رکھیں، کتاب بھی کھولیں، ریکارڈ شدہ گفتگو سنیں اور گوگل سے بھی مدد لیں اور اپنے نوٹس تیار کریں، میری طرف سے کسی قسم کے کوئی نوٹس نہیں ملیں گے، جو نوٹس آپ بنائیں وہ مجھے لا کر دکھائیں میں ایک ایک بچے کا کام دیکھوں گا اور اصلاح بھی کروں گا ، جو کام آپ خود کریں گے ہمیشہ آپ کو یاد رہے گا، اور تعلیم میں اگر تخلیق نہیں تو وہ تعلیم نہیں ہے، جو بچہ اس انداز میں پڑھے گا اسی کو اسلامیات کی سمجھ آئے گی اور اسی کو سو میں سے نوے نمبر بھی ملیں گے جو کہ آپ کے جی پی اے کو بہتر کرنے میں مدد بھی کریں گے، آغاز میں، میں نے بچوں سے کہا کہ یہ آپ کی زندگی کی پہلی اور آخری اسلامیات ہے، اس سے پہلے آپ نے اسلامیات اس طرح پڑھی ہے کہ بچپن سے چند مخصوص موضوعات آپ کو پڑھائے جاتے ہیں، آپ انہی کو یاد کر کے لکھ دیتے ہیں، بہت نمبر لیتے ہیں اور پاس ہوجاتے ہیں، لیکن آپ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جو پڑھا اس کا آپ کی زندگی میں کیا کردار ہے، مثال کے طور پر اگر میں آپ سے ابھی کہوں کہ توحید کے بارے میں دس سطریں لکھیں تو کیا لکھ لیں گے؟ سب نے کہا کہ بالکل لکھ لیں گے، میں نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ آپ اس میں توحید سے متعلق کوئی آیت بھی شامل کریں تو کیا ایسا بھی کر لیں گے، اس پر بھی سب نے کہا کہ کر لیں گے، پھر میں نے کہا کہ کیا آپ کی زندگی میں کوئی فکر یا پریشانی ہے تو سب نے کہا کہ ہے، اس پر میں نے کہا کہ یہ فکر، تکلیف یا پریشانی کون دیتا ہے اور کیوں دیتا ہے، کون دور کرے گا، یہ سب کچھ کس کے ہاتھ میں ہے، تو جواب تھا کہ ایک ، واحد اور یکتا اللہ پاک ہی سب کرتا ہے، تو میں نے کہا کہ جو توحید آپ نے ساری زندگی پڑھی ہے وہ صرف اور صرف پڑھنے کی حد تک تھی، یہ توحید آپ کی زندگی میں نہیں آسکی، جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا
کہ زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اک مسئلہ ء علم کلام
بچے میری باتیں تو توجہ سے سنتے تھے، لیکن ان کے رویوں میں غیر سنجیدگی بالکل واضح تھی، میں نہیں سمجھتا کہ اس انداز میں دوسرے لوگ بھی پڑھاتے ہوںگے، اور اس بارے میں بچے شکایت کرتے بھی نظر آتے تھے، تو اس غیر سنجیدگی میں بچے اکیلے قصور وار بھی نہیں ہیں، حاضری میں بھی کمی ہوتی، سوال کرنے کی میں بہت ترغیب دیتا تھا لیکن بہت کم بچے سوال کرتے تھے، اسی طرح گھر کا کام جو دیا جاتا بہت کم بچے کرکے لاتے تھے، لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ وٹس ایپ گروپ بھی بنا دیئے تاکہ بچوں کو معلومات بروقت ملتی رہیں، اسی طرح اسائنمنٹ یہ تھی کہ سمسٹر کے آغاز میں انہیں نماز کی ایک کتاب دی گئی کہ دو ماہ میں آپ نے اس کا پورا مطالعہ کرنا ہے، اور اس کے بعد اس پر تبصرہ کرنا ہے، اس کتاب میں جو لکھا ہے اس کو نہ ماننا ہے اور نہ اس پر عمل کرنا ہے بس دیکھنا ہے کہ اگر نماز میں اتنا اختلاف ہے تو باقی عبادات میں بھی ہو گا اور اب سب کچھ ٹھیک تو ہو نہیں سکتا، حق ایک ہی ہوتا ہے، اب اس حق کو اپنے لئے تلاش کریں کیونکہ آپ نے اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کا جواب دینا ہوگا، ساڑھے چار سو بچوں سے ایک ایک کرکے انٹرویو لئے کہ کتاب کو کیسا پایا، اکثر نے کہا اس میں تو نئی نئی باتیں ہیں جو کہ ہم نے کبھی نہیں سنی، اکثر نے کہا اس میں لکھا ہے کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن ہم تو بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے، میں نے کہا کہ اب یہ دونوں باتیں تو درست نہیں ہیں، یا تو مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے یا پھر نہیں ہے، مجھے پتا ہے کہ فرق ہے یا نہیں لیکن میں آپ کو نہیں بتاؤں گا، خود دیکھیں اور تلاش کریں کہ حقیقت کیا ہے اور اسی طرح دیگر عبادات اور معاملات میں اپنے لئے سچ تلاش کریں کیونکہ آپ نے جواب دینا ہے اور اپنا جواب دینا ہے، کئی نے تو کتاب پڑھی ہی نہیں، ہاتھ جوڑتا رہا کہ خدارا سنجیدہ ہو جائیں، والدین نے جس کام کے لئے آپ کو یونیورسٹی بھیجا ہے وہ کریں، اپنی اور ان کی عزت کا خیال کریں، اوروں کی طرح بچے بھی کہتے ہوں گے کہ یہ کیا پاگل ہے، اور وہ اپنی مستی میں مست رہے، آخر امتحان کا وقت آگیا، دو تین سوالات تو میں نے ایسے ہی دیئے کہ ہجرت مدینہ پر یا طائف کے سفر پر نوٹ لکھیں، اور یہ سوالات اس لئے دیئے تاکہ بچوں کو زیادہ مشکل نہ ہو اور کچھ نہ کچھ نمبر لے لیں، اس کے علاوہ ایک سوال یہ تھا کہ عبادت کا اصل تصور کیا ہے، عبادت کا لازمی نتیجہ کیا ہے اور عبادت اور عادت میں کیا فرق ہے، اور قرآن کی سفارش اور جھگڑے سے کیا مراد ہے، اب یہ وہ سوالات ہیں کہ جو اس طرح سے کتابوں میں موجود نہیں تھے ان کا جواب وہی دے سکتا تھا کہ جس نے خود ان سوالات کے جواب ہوم ورک میں تیار کئے تھے، ان کے لئے یہ بہت ہی آسان تھا لیکن ایسے بچوں کی تعداد بہت کم تھی، باقیوں کو اس کی سمجھ نہیں آئی اور انہوں نے دس دس صفحے بھر دیئے لیکن سب غیر ضروری اور غیر متعلق لکھا، عبادت کا روایتی معنی لکھا اور نماز، روزہ، حج ، زکواة کی وضاحت کی، دو دن میں میں نے نتیجہ تیار کرکے جمع کروا دیا، بچوں نے وہ رونا دھونا شروع کیا کہ مت پوچھیں، ہم نے تو بالکل ٹھیک لکھاتھا یہ کیا ہوا، منتیں کرنے لگا کہ ہم فیل ہو جائیں گے تھوڑے نمبر زیادہ کر دیں، کسی کو ایک نمبر بھی نہیں دیا، قارئین کرام یہ سب آپ کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس میں ہم سب کے لئے ایک بہترین مثال ہے، اسی طرح یہ زندگی بھی ایک امتحان ہیں، ابھی ہم ان بچوں کی طرح غیر سنجیدہ ہیں لیکن ایک دن اچانک سے یہ زندگی ختم ہو جائے گی اور ہم بھی حیران رہ جائیں گے، لیکن تب ایک نمبر بھی نہیں ملے گا۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام