آئی ایم ایف سے ڈیل کے اثرات

پاکستان کو آئندہ مالی سال کے لئے 12جولائی کو آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے قبل گیس کی قیمت فروخت میں 45 تا 50 فیصد اور بجلی کے نرخ میں ساڑھے تین سے چار روپے فی یونٹ تک اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ اضافہ سٹاف سطح پر آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالرز کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کی راہ ہموار کرے گا۔اس ضمن میں پیش رفت کے طور پراوگرا نے حال ہی میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کے صارفین کے لئے قیمت میں 50 فیصد اضافے یعنی 415 روپے 11 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو کا اعلان کیا تھا جس سے قیمت بڑھ کر 1238.68روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی جب کہ سوئی سدرن گیس کے صارفین کے لئے قیمت میں 45 فیصد اضافہ یعنی 417.23 فی ایم ایم بی ٹی یو طے کیا گیا۔اس کے بعد بلوں میں اضافے کے حوالے سے کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں مسئلہ صرف یہی نہیں بلکہ دوسری جانب اپنی جگہ مشکل امر یہ بھی ہے کہ پورے شعبہ توانائی کے گردشی قرضے کا حجم 4300 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں 1700 ارب روپے تیل و گیس اور 2600 ارب روپے بجلی کے شعبے کے ہیں۔ ٹیرف میں پریشان کن باتبنیادی ٹیرف میں استعدادی چارجز میں گزشتہ مالی سال کے 57 کے مقابلے میں 63 فیصد اضافہ ہے، اس طرح صارفین کوا س مد میں 1.3 سے 1.5 ٹریلین روپے ادا کرنا ہوں گے۔ نیپرا نے بنیادی ٹیرف 24.80 روپے فی یونٹ مقرر کیاتھا، اگر اس میں مطلوبہ اضافہ شامل کرلیا جائے تو آئندہ مالی سال کے اختتام تک ٹیرف 29 روپے فی یونٹ ہوجائے گا ۔اگرچہ اس کا رسمی انعقاد و نفاذ باقی ہے لیکن گیس بلوں کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کا ا طلاق ہوچکا ہے صارفین کے گیس بلوں میں چار گنا تک اضافہ ہوا ہے اور اگر یہ تاثر درست نہیں اور اب مزید اضافہ کااطلاق پہلے ہی واقعی ہونا ہے تو اس وقت کم سے کم گیس استعمال کرنے والے صارفین کوتقریباً بائیس سو روپے ماہانہ آنے والے بل میں مزید دوگنے سے زائد رقم شامل ہوسکتی ہے بہرحال یہ صورتحال واضح نہیں صورتحال جوبھی ہوگیس کی ناپیدگی کے مسئلے سے دوچارصارفین اب مزید مہنگائی کا شکار ہوں گے اور ان کے بلوں میں اضافہ ہوگا اس وقت صارفین دوہری مشکلات کا سامنا ہے وہ ایک جانب گیس نہ ملنے کے با عث اضا فی ایندھن کے حصول پر مجبور ہیں اوردوسری جانب فکس چارجز کے نام پرتقریباً پانچ سو روپے اور گیس بلوں میں اضافہ در اضافہ نے ان کی کمر دوہری کر دی ہے اس سارے عمل کے پیچھے آئی ایم ایف کی شرائط اوراس کی خوشنودی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان حالات میں گزشتہ سال کا توانائی بحران اس کے مقابلے میں ہلکا دکھائی دے گا جو 2023 ء میں عوام کو سامنا کرنے جانا ہے گرمیوں اور سردیوں میں پاکستان میںتوانائی کی کمی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں گیس ہو یابجلی ہر شعبہ دبائو اور انحطاط پذیر ہیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بڑی وجہ بوسیدہ گرڈ ہے جوموسم گرما کے بوجھ بجلی کے اضافی استعمال کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے لہٰذا صارفین کو نہ صرف روزانہ گھنٹوں کے شیڈول اور جبری بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بجلی کی فراہمی میں بار بار ٹرپنگ اور اتار چڑھائو کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ موسم گرماکی صورتحال سب کے سامنے ہے موسم سرما کی تیاریاں اس سے بھی مایوس کن ہیںکیونکہ چھ اسپاٹ ایل این جی کار گوز کومحفوظ کرنے کی بولی کوعالمی گیس سپلائرز نے پاکستان کی ڈالر کی کمی اور درآمدات کے لئے قرض کے خطوط کھولنے میں دشواریوں کی وجہ سے مسترد کر دیا ہے ایسے میں کیا جنوری اور فروری کے لئے تین کارگو خریدنے کی اگلی کوشش کامیاب ہوگی؟اور اس کے دام کیا ہوں گے اس کاکسی کو اندازہ نہیں دوسری جانب گیس اوربجلی کی طویل بندش پاکستانیوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے 2000 کی دہائی کے آخر اور 2010ء کی دہائی کے اوائل میں ہم وطن خاص طور پر بجلی کے بحران کے باعث جن مشکلات سے گزرے وہ ناقابل بیان ہے جسے دہرانے کی ضرورت نہیں تاہم سی پیک اقدام کے تحت بجلی کی پیداوار میں بڑے پیمانے پرچینی سرمایہ کاری نے یہ امید پیدا کر دی تھی کہ بلیک آئوٹ کا مسئلہ حل پذیر ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ الٹا پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا جس سے حکومت پر پاور سیکٹر کا بہت بڑا قرضہ جمع ہوتا گیا کیونکہ خوردہ قیمتوں میں متعدد بار اضافے کے باوجودبھی یہ مسئلہ لاینحل ہی چلا آرہا ہے اور حکومت پر بوجھ میں اضافہ ہ رہا ہے۔ عالمی سطح پر تیل اوراین این جی کی قیمتوں میںکوڈ کے بعد ہونے والے اضافے نے معاملات کو مزید خراب کردیا کیونکہ حکومت گرمیوں اور سردیوں دونوں میں بار بار بجلی اور گیس کی بندش کا سہارا لینے پرمجبور تھی تاکہ اپنے توانائی کے درآمدی بل کو کم کیا جا سکے اس کی قیمت عوام کوادا کرنا پڑی اب بھی عوام ہی کوقربانی کابکرا بنایا جارہا ہے ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ توانائی کا موجودہ بحران تاریخی اور ساختی عوامل کا نتیجہ نہیں ہے جو صرف کمزور پاور سیکٹر کا باعث ہیں بلکہ دیکھا جائے تو حالیہ مہینوں میں توانائی کی کمی پاکستان کی ناکام معیشت کی علامت بن گئی ہے حکام کی جانب سے ایندھن کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے اور صارفین کو آئے روز اضافی بلوں کی ادائیگی کے لئے ہچکچاہٹ کا سامنا کرنے کے ساتھ ملک کی مالی حالت میں نمایاں بہتری اورتوانائی کے شعبے میں ساختی مسائل کو حل کرنے کے لئے درکار تکلیف دہ اصلاحات کے نفاذ کے بغیر پاکستان میں توانائی کی مشکلات جلد دور ہونے کا امکان نہیں ہے ۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام