شنگھائی کانفرنس میں مودی کا بھاشن

نریندر مودی نے ایک بار پھر شنگھائی کانفرنس کی ورچوئل میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا نام لئے بغیر ہدف تنقید بنایا ہے اور ایک با رپھر دہشت گردی کا وہی منترا پڑھا ہے جو چند دن قبل وائٹ ہائوس میں پڑھاگیا تھا ۔نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے اس ورچوئل اجلاس سے خطاب کیا اور اس میں روسی صدر ودلایمر پوٹن ،چینی صدر شی چن پنگ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اوروزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سمیت وسط ایشیائی ملکوں کے سربراہان شریک تھے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئترس نے بھی ورچوئل سیمینار سے خطاب کیا اور بات چیت کو ہی تنازعات کا حل قرار دیا ۔شنگھائی کانفرنس کا ابتدائی اجلاس بھارتی شہر گوا میں منعقد ہوچکا تھا جس میں پاکستان سے شرکت کے لئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بنفس نفیس بھارت پہنچے تھے جہاں ان کے ساتھ بے اعتنائی کا سلوک نمایاں طور پر محسوس کیا گیا تھا ۔اب یہ اجلاس دہلی میں منعقد ہونا تھا نریندر مودی کسی انجانے دبائو میں یہ فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے اور اجلاس کے آن لائن انعقاد پر ہی اکتفا کر لیا گیا ہے ۔یہ دبائو مغربی ہی ہو سکتا ہے کیونکہ مغرب شنگھائی تعاون تنظیم کو ایشین بلاک کے زاویے سے دیکھ رہا ہے اور ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ ڈھیلا ڈھالا اتحاد محدود تعاون سے آگے بڑھنے پائے ۔نریندرمودی نے اس فورم کوایک بارپھر دہشت گردی کے منترے کے لئے اور پاکستان کو ہدف تنقید بنانے کے لئے استعمال کیا ۔مودی نے شنگھائی کے رکن ملکوں پر زرودیا کہ وہ دہشت گردی کی مذمت کرنے میں تساہل نہ برتیں اور ان ملکوں کی مذمت کریں جو اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کی اجازت دیتے ہیںاس موقع پر شہباز شریف نے بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں اقلیتوں پر مظالم کرنے والے ملکوں کی بات کی اور ایسا کہتے ہوئے ان کا اشارہ بھارت کی جانب تھا۔شنگھائی تعاون تنظیم سمیت کسی بھی عالمی فورم کو اب مودی کے بھاشن سننے کی بجائے جنوبی ایشیا کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے ثالثی کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے ۔او آئی سی ،اقوام متحدہ امریکہ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے لوگ جب مودی جیسے انتہا پسند کی باتیں اور بھاشن انہماک سے سنیں گے اور تالیاں پیٹیں گے تو پھر مودی کے حامی اقلیتوں کے ساتھ وہی کر یں گے جو اس شرمناک تصویر میں ہو رہا ہے جس میں ایک انتہا پسند ہندو اور بی جے پی کا عہدیدار ایک دلت نوجوان کے اوپر پیشاب کر رہا ہے ۔صرف بھارتیوں کو ہی نہیںانسانیت کو مدتوں تک اس تصور اور منظر پر شرمسار اورنادم ہونا چائے کہ ایک ملک ومعاشرے میں انسانیت کی تذلیل کا وہ انداز آج بھی جاری ہے جو ماضی بعید کی تاریخ میں ملتا ہے جب انسانوں کے حقوق کا کوئی تصور تھا نہ شرف انسانیت کا احساس کہیں موجود تھا ۔ اس کا کیا کیجئے کہ یہ وہی ملک جہاں ایک سیاسی کارکن نے کہا تھا کہ خدارا مجھے گائے جتنی ہی عزت تو دو ۔ اس تصویر کے سامنے آنے پرانسانیت کو د ھاڑیں مار کر رونا چاہئے کہ آج مہذب کہلانے والے دور میں بھی انسانیت کی اس طرح تذلیل کی جا سکتی ہے مگر مغرب میں تقدیس انساں کے دعوے دار اور پاسبان اس تصویر سے لاتعلق رہیں گے کیونکہ انہیں مودی کی حرکتوں اور بھارت کے حالات سے غرض نہیں بلکہ اس کی منڈیوں سے پیار ہے ۔اس تعلق میں انسانیت شہری آزادیاں اور انسانی حقوق سمیت مغرب کی سب اقدار بے اثر ہو جاتی ہیں ۔بھارت میں تو شاید کچھ دبائوپیدا ہو جس کے نتیجے میں دلت نوجوان پر پیشاب کرنے والے کو گرفتار کیا جا چکا ہے مگر مغرب میں اس تصویر پر کوئی بھونچال آیا نہ کسی ضمیر نے جھرجھری لی ۔یہی تصویر پاکستان یا ایران میں بنی ہوتی تو مغرب کی این جی اوز اور ادارے کسی بیوہ کی طرح بال کھولے دھاڑیں مارکر رورہے ہوتے ۔پاکستان اور بھارت کے معاملات جس انداز سے پھنس کر رہ گئے ہیں اس میں ثالثی اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر معاملات حل ہونا اب ممکن ہی نہیں رہا ۔پاکستان اور بھارت اپنی پوری تاریخ میں کبھی کسی دبائو اور ترغیب کے بغیر ایک میز پر نہیں بیٹھے ۔تاشقند اور شملہ کے معاہدات ہوں یا اعلان لاہور اور مشرف من موہن پیس پروسیس دونوں ملکوں کے درمیان جب بھی مذاکرات کے تار جڑے تو اس کے پیچھے امریکہ کا دبائو تھا ۔یہ پوری تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی معاہدے کے لئے پاکستان اور بھارت نے امریکہ کو مشترکہ درخواست نہیں بھیجی بلکہ امریکہ نے جنوبی ایشیا میں کسی کشیدگی کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے دونوں ملکوں کو پس پردہ دبائو کے تحت مذاکرات کی میز پر بٹھائے ۔اب امریکہ پہلی بار اس معاملے میں بے بس ہو چکا ہے تو اس کی ٹھوس وجوہات ہیں اور یہ امریکہ کی ہاتھوں سے دی گئی گانٹھ ہے جو دانتوں سے کھولنا پڑرہی ہے ۔امریکہ افغانستان میں پاکستان کے کردار سے ناخوش تھا تو اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان توازن رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی کرکے بھارت کی رسی دراز کر دی ۔اس عرصے میں امریکہ نے خفیہ سفارت کاری کا کام بھی چھوڑ دیا اور بھارت کی اصطلاحات اپنائیں اور اس کی فرمائشوں کی تکمیل کا انداز اپنالیا ۔امریکہ کی اس پالیسی نے بھارتی حکمرانوں کا دماغ خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔نریندرمودی جیسا شخص جو پہلے ہی ایک مخصوص اور سخت گیر مائنڈ سیٹ کا حامل تھا امریکہ کی تھپکی کے باعث خود کو خطے کا دادا گیر سمجھنے لگا۔مودی کے تکبر نے جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم سارک کو نشان عبرت بنا دیا حالانکہ سارک کے قیام اور فروغ میں امریکہ کا دبائو شامل تھا ۔بعد میں سارک میں افغانستان کی شمولیت بھی اس دبائو کا نتیجہ تھی ۔یہ تنظیم جنوبی ایشیائی ملکوں کے درمیان تعاون کے حوالے سے ایک موہوم امید تھی مگر نریندر مودی نے اس تنظیم کا تیا پانچہ کر دیا اور امریکہ اس کیفیت کو خاموشی سے دیکھتا رہا ۔مغرب کی تھپکی نہ ہوتی تو بھارت اس قدر خود سر نہ ہوتا ۔کشمیر پر قیامتیں گزر گئیں ۔وہاں انسانی حقوق کے مقتل سجائے گئے مگر امریکہ مہر بہ لب رہا اور یہ رویہ بھارت کے حوصلے بڑھانے کا باعث بنتا چلا گیا یہاں تک کہ بھارت نے شہ پاکر کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ہی ختم کر دیا ۔امریکہ نے بھارت کی نازبرداریاں کرکے اپنی اثر انداز ہونے کی صلاحیت اور سکت کم کر دی ہے۔شنگھائی تنظیم کو نمبر سکورنگ کے لئے استعمال کرنا اس کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے ۔ایک طرف پاکستان بھارت کے تمام معاندانہ رویوں کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر بھارت کے ساتھ جا بیٹھتا ہے تو دوسری طرف بھارت ہر موقع پر اس محفل سے پاکستان کو اُٹھادینے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔اس فورم کو بھی پاکستان پر الزام تراشی کے لئے استعمال کرکے ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔شاید بھارت اپنا مستقبل شنگھائی تنظیم کی بجائے نیٹو کے ساتھ دیکھتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی