اکیڈیمیہ، معاشرہ اور حکومت کی ترجیحات

آج سے ڈھائی ہزار برس پہلے کوتلیہ چانکیہ نے ”ارتھ شاستر” لکھی تھی جس میں تہذیب ، معاشرت ، حکومت اور ملکی معاملات چلانے کی اصول وضع کئے گئے تھے ۔اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تہذیب کے ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے، علوم و فنون، زراعت، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات’ صنعت، حرفت، قوانین، رسوم و رواج، توہمات’ ادویات، فوجی و غیر فوجی مہمات، سیاست کے امور اور مستقبل کی پیش بندی اس کتاب میں ایک پورا ضابطہ ترتیب دیا گیا یہ وہ دور ہے جب دنیا نے معاشرتی سائنسی اور مواصلاتی ترقی نہیں کی تھی، اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کے ہندوستان میں انتظام حکومت چلانے کے کون کون سے طریقے رائج تھے لیکن حیرت اس امر پر ہے کہ آج جب دنیا مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو چکی ہے وہاں پاکستان میں اکیڈیمیہ یعنی پڑھا لکھا طبقہ یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم و تربیت و تحقیق پر مامور طبقہ اور حکومت میں کوئی لنک نہیں ہے، نہ ہی معاشرے میں اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں اور انڈسٹری سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے، اس کا نتیجہ ملک میں بیڈ گورننس، معیشت و زراعت میں تنزلی اور بیروزگاری میں اضافہ ہے، اس وقت ملک میں دو سو سے زائد یونیورسٹیاں اور چار ہزار سے زائد کالجز ہیں جو ملک کی آبادی کو تعلیم مہیا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، سکولوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی مگر اس کے ثمرات تلاش کئے جائیں تو مایوسی ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے مقابلے میں کسی ترقی یافتہ ملک کا ڈیٹا نکال کردیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے تعلیمی ادارے اس ملک کی فلاح و بہبود میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہے ہیں، سنگارپور کی اکانومی وہاں کے تعلیمی نظام کی مرہون منت ہے یہی حال ہانگ گانگ کا ہے، اب ویتنام اور بنگلہ دیش بھی اپنی اکیڈیمیہ کی بدولت ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں، آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں رائج نظام تعلیم سے ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے، اس وقت انجینئرنگ کی ڈگری لینے والے 90 فیصد گریجویٹس بے روز گار ہیں، ملک میں اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹرز بے روز گار ہیں، کمپیوٹر سائنس اور نیومیریکل سائنس، بائیو سائنس اور دیگر علوم میں ڈگری لینے والوں کے لئے سکول کالج ٹیچنگ کے علاوہ کوئی جاب نہیں ہے، اس ملک میں سالانہ سات ہزار طلباء بائیو ٹیکنالوجی یا میکرو بائیولوجی کرکے فارغ ہوتے ہیں اور ان کی ایک فیصد کو بھی جاب نہیں ملتی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی لیب ہی نہیں ہے جو ان کو جاب دے چند ایک پرائیویٹ لیبارٹریاں ہیں جہاں میٹرک پاس بندوں کو کم اجرت پر رکھ کر کام چلایا جاتا ہے، اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ایسی تعلیم دے رہے ہیں جس کی ہمارے معاشرہ میں کوئی کھپت و ضرورت ہی نہیں ہے اور ہماری حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے، وہ کلاس فور بھرتی کرنے کے لئے روز ایک نئی یونیورسٹی بناتی چلی جاتی ہے اور وہاں ان مضامین کو پڑھانے کا انتظام کرتی ہے جن کو دنیا نے کب کا ترک کیا ہوا ہے، ایک مخصوص طبقہ ہے جو چاپلوسی کرکے پالیسی سازی میں خود کو شامل کرلیتے ہیں اور پھر صرف ذاتی مالی فائدے کے لئے ملکی تعلیمی نظام کو مزید اپاہج کرکے رکھ دیتے ہیں، ہم نے ملک کی یوتھ کو کھیل تماشوں اور سیاست میں الجھا رکھا ہے اور ان کو مستقبل کے لئے تیار کرنے کا کوئی عملی منصوبہ نہیں بنایا جبکہ آج سے ڈھائی ہزار برس پہلے ہندوستان میں موجود ماہرین ہم سے آگے تھے اگر آپ کو شک ہے تو کوتلیہ چانکیہ کی ”ارتھ شاستر ” اٹھا کر پڑھ لیں، افاقہ ہوگا، اب وقت آگیا ہے کہ ملکی سطح پر اپنی ضروریات اور وسائل اور افرادی قوت کی تعلیم و تربیت کو اس سے مربوط کرنے کیلئے SWOT ,PEST,PESTEL تجزیہ کیا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اس ملک کی طاقت کیا ہے اس کی کمزوریاں کیا ہیں، اس کے پاس وسائل کیا ہیں اور اس کو خطرات کون کون سے لاحق ہیں، اس کی پولیٹیکل، اکنانومیکل، ٹیکنالوجیکل، سوشل، اینورنمیٹل اور قانونی حیثیت و اہمیت کیا ہے ان سب کو کون کون سے خطرات درپیش ہیں ان خطرات کو کم یا ختم کرنے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوگی، اس بات کا تعین جب تک کوئی قوم نہیں کرتی پھر اس کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا ہے، اس تجزیہ کے بعد ایک فریم ورک بنایا جائے اور اس کی بنیاد پر ایک بزنس پلان ترتیب دیا جائے جس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد ہو جیسے دنیا کے دیگر ممالک نے کیا ہے اس میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے بہت ساری چیزیں پہلے سے موجود ہیں ان کی ترتیب درست کرنی ہے، وسائل کا حقیقی اور عملی استعمال شروع کروانا ہے، یہ کام بہت ہی آسان ہے مگر ہماری ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے، یہ ملک بھی مغل حکمرانوں کی طرز پر چلایا جارہا ہے جہاں بھانڈ اور مسخرے اور چاپلوس حکمرانوں اور ارباب اختیار کے گرد جمع رہتے ہیں ان کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہیں اور ذاتی فائدے اٹھاتے رہتے ہیں اور عملاً کوئی کام نہیں ہوتا، ہائرایجوکیشن کمیشن پاکستان بھی ایسا ہی ایک ادارہ بن چکا ہے جہاں ایک گروپ گزشتہ دو دہائیوں سے ذاتی فوائد حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور اعلیٰ تعلیم کا نظام اور انتظام تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے، مخصوص اداروں کو اربوں روپوں کی فنڈنگ ملتی ہے لیکن ان اداروں کا ملک کی ترقی خوشحالی میں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی ان اربوں روپوں کی مصرف کا کوئی اڈٹ ہوتا ہے، یہی حال اسلام آباد میں موجود آٹھ ان اداروں کا ہے جو ملک میں ادب ، زبان ، کتاب ، سائنس ، کلچر ،ہیرٹیج، اور دیگر اثاثوں میں استحکام کے لئے بنائے گئے تھے ان اداروں پر کئی دہائیوں سے نالائق، نااہل لیکن کمال کے چاپلوسوں کا قبضہ ہے ان اداروں کا کام یہ تھا کہ یہ ملک میں معاشرتی ترقی اور فنون کی ترویج کریں اور قیمتی اثاثوں کو ڈاکومنٹ کرکے محفوظ بنائیں اس مقصد کے لئے حکومت پاکستان اربوں روپے کے فنڈز مہیا کرتی ہے مگر انجام یہ ہے کہ کچھ، مجلسی لوگ جنہیں نہ مینجمنٹ کا کوئی تجربہ ہے نہ اسٹرٹیجیک پلاننگ کا اور نہ ہی متعلقہ شعبہ میں ان کی کوئی تعلیم و تربیت ہے وہ صرف چاپلوسی اور حکومت میں شامل ناعاقبت اندیش لوگوں کی آشیر باد سے ان اداروں کو سفید ہاتھی بنا رہے ہیں، اس اداروں کو فعالیت بخشی جاسکتی ہے اور ان کی مدد سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے وژن اور سمجھ کی ضرورت ہے، ایک چھوٹی سی مثال کافی ہوگی، جب کوویڈ 19 آیا تو ایک ہنگامہ بپا ہوگیا کیونکہ اس جیسی صورتحال سے ہم پہلے کبھی دوچار نہیں ہوئے تھے میں ان دنوں ایک یونیورسٹی کا سربراہ تھا، خیبرپختونخوا کی حکومت نے ایک ہنگامی میٹنگ بلائی کہ کیا کیا جائے، اس میٹنگ میں صوبہ کے تمام اعلیٰ عہدیدار اور سیاسی رہنماء موجود تھے، کسی کے پاس کوئی پلان نہیں تھا، میں نے ان کی معلومات کے لئے ان کو بتایا کہ اس وقت چین ایک ہی ملک ہے جہاں اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور انہوں نے اس سارے کام کو اپنے دو بڑے بائیوٹیکنالوجی کی لیبارٹریوں کے حوالے کیا ہے جس سے وہاں کافی حالات کنٹرول ہوئے ہیں ہمارے صوبہ میں اس وقت بارہ یونیورسٹیوں میں بائیوٹیکنالوجی اور میکروبائیولوجی اور ویرالوجی کے سینٹرز ہیں جن پر حکومت نے اربوں روپے کے وسائل خرچ کئے ہیں ان سینٹرز میں دو سو سے زائد پی ایچ ڈیز ہیں جنہوں نے حکومت کی اسکالرشپس پر بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کی ہے، ان تمام سینٹرز میں اعلیٰ کوالٹی کی لیبارٹریاں ہیں، اس کام میں ان کو شامل کیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا، اس لئے کہ پوری دنیا ایسا کررہی ہے اس وقت کے عقل کل وزیر صحت و خزانہ سے آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ اتنے اعلیٰ ماہرین، سینٹرز اور دیگر سہولیات کے ہوتے ہوئے اس نے پرائیویٹ کمپنیوں کو یہ کام کیوں حوالے کیا جبکہ ان پرائیویٹ کمپنیوں کا وجود بھی انہیں دنوںعمل میں آیا تھا۔ مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو، کسی نے بھی اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا اگر ہم ان سینٹرز کو اس کام میں شامل کرتے تو ان کی ورکنگ کپیسٹی بڑھتی اور جو اربوں کا فائدہ ایک یا دو پرائیویٹ لیبارٹریوں کو جان بوجھ کر پہنچایا گیا، وہ پیسے حکومت کو بچ جاتے اور مستقبل میں ایسی کسی اور وبا ء کے ساتھ ہم با آسانی نبٹ سکتے مگر ایسا نہیں ہوا اور انجام آپ کے سامنے ہے۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ