چہ دلاور است دز دے۔۔۔

وزیر شہباز شریف نے اسرائیل کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا پاکستان میں انسانی حقوق کی بات کر رہا ہے’ اس کا بیان چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، اسلام آباد میں پاکستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ’ فارماسسٹ ایوارڈز اور فلائی اوور سنگ بنیاد کی تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ چودہ اگست کو حکومت کی مدت ختم ہوگی’ الیکشن کب ہوںگے اس کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا لیکن تعلیم آئندہ حکومت کی بھی ترجیح ہونی چاہئے’ امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ روز اسرائیل نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بیان دیتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ پر سوال اٹھائے تھے’ جسے ایک اردو محاورے کے مطابق ”اووروں کو نصیحت’ خود میاں فضیحت” قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جہاں تک انسانی حقوق کی پاسداری کا تعلق ہے، اسرائیل طویل عرصے سے فلسطینیوں کے حقوق کو جس طرح پامال کر رہا ہے’ ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے’ ان کی بستیوں پر بمباری کرتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پرزے پرزے کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کو پائوں تلے کچل رہا ہے’ وہ ہر کوئی بخوبی جانتا ہے’ اس سلسلے میں اسرائیلی بیان کے بعد اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی گزشتہ روز اسرائیل کو مسکت جواب دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کے خلاف اسرائیلی بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو انسانی حقوق کے تحفظ پر اسرائیل کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ اس مشورے کے بغیر بھی یقینی طور پر کافی کچھ کر سکتا ہے’ اسرائیل کی فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی طویل تاریخ ہے جینوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53 ویں اجلاس میں پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی نمائندے کی تنقید پر رد عمل دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے والا اسرائیل پاکستان کو انسانی حقوق پر نصیحت نہیں کر سکتا’ اسرائیل کو اس ضمن میں جس ہزیمت کا سامناکرنا پڑا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے پاکستان کی عالمی رپورٹ کو متفقہ طور پر منظور کر لیا متعدد ریاستوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے انسانی حقوق کے فروغ میں پیش رفت پر پاکستان کی تعریف کی ہے، ترجمان نے کہا کہ اسرائیل نے دیگر ریاستوں کی بڑی اکثریت کے بیانات کے برعکس ایک سیاسی بیان جاری کیا’ اسرائیل کی فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی طویل تاریخ کے پیش نظر حقوق ا نسانی کے تحفظ کے بارے میں پاکستان کو اس کے مشورے یا نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ جینوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ‘ جبری گمشدگی ‘ تشدد ‘ پرامن اجتماع کے خلاف کارروائی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا ‘ اسرائیل کے پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر بیان کو شرمناک ڈھٹائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بیان دینے سے پہلے اسے خود اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے تھا کہ خود اس کی تاریخ بے گناہ ‘ نہتے اور کمزور فلسطینیوں پر شرمناک مظالم ڈھانے کے واقعات سے بھری پڑی ہے’ اسرائیلی نمائندے نے جن حالات کے تناظرمیں یہ بیان دیا (جسے عالمی سطح پر پذیرائی نہ مل سکی) اس کی حقیقت پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کیونکہ جس سیاسی قوت کی جانب سے نو مئی کے واقعات برپا کئے گئے اور ملک کے اندر بغاوت کی صورتحال پیدا کرنے کی شعوری اور سوچی سمجھی کوشش کی گئی ‘ اس پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں کہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے نہ صرف اسرائیل بلکہ بھارت سے بھی اس کی مدد کی جاتی رہی ہے’ یہ مقدمہ تاحال چونکہ کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکا اس لئے یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کی جا سکتی لیکن الزامات بہرحال اپنی جگہ موجود ہیں اور جب سے نو مئی کے واقعات ہوئے ہیں بھارتی ذرائع ابلاغ پر جشن کا سماں ہے جبکہ ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈائون کے بعد اس حوالے سے گرفتار افراد کو ”انسانی حقوق” کے چیمپیئن جس طرح اعتراضات کی سان پر رکھ رہے ہیں، انہیں اس سے پہلے امریکہ میں سابق صدر کے حامیوں کی جانب سے امریکی ایوان نمائندگان پر حملے کے بعد ان کے خلاف اقدامات کوبھی اسی طرح کے بیانات دے کر اس کی مذمت کرنے کی جرأت کرنی چاہئے تھی جبکہ انہیں یہ جواب بھی دینا پڑے گا کہ کسی بھی خود مختار ملک کے اندر بغاوت برپا کرنے والوں کے ساتھ کیا سکیورٹی اداروں کو سختی سے نمٹنے کی بجائے کیا ان کی ملک دشمن کارروائیوں کو”تماشائی” بن کر نظر انداز کرنا چاہئے؟ اس ضمن میں وزیر مملکت مصدق ملک کے بیان کو بھی دیکھنا پڑے گا جنہوں نے کہا ہے کہ جن کے حق میں اسرائیلی بیان آیا ہے جواب انہیں دینا چاہئے، بہرحال اسرائیلی بیان کر دنیا بھر میں جس حوالے سے لیا گیا اور اس کو کسی اہمیت کے قابل نہیں سمجھا گیا بلکہ پاکستان کے موقف کی پذیرائی ہوئی’ اس سے اسرائیلی لابی اور پاکستان میں اس کے مبینہ حمایتیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انہیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اس قسم کے دبائو میں آکر پاکستان میں بغاوت برپا کرنے والوں کے ساتھ کسی نرمی کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری