نیا پنڈورا بکس

ملک میں موجودہ حکومت کی مدت اقتدار کے آخری ایام تیزی سے گزر رہے ہیں نگران وزیر اعظم کے لئے مشاورت شروع کر دی گئی ہے ایسے میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا بیان خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ پرانی اور نئی مردم شماری کاالیکشن سے کیا تعلق ہے ووٹر لسٹیں اپ ڈیٹیڈ ہیں 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات بارے وزیر داخلہ کا بیاں سیاسی میدان میں کافی ہلچل کا باعث اس لئے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں نئی مردم شماری کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن مشکل امر یہ ہے کہ مردم شماری کا عمل اور آبادی کے درست اعداد و شمار ہنوز سامنے نہیں آسکے بلکہ اس عمل کی تکمیل ہی نہیں ہو سکی ہے ایسے میں حکومت کی دانست میں پچھلی مردم شماری کی بنیاد پر ہی انتخابات کرانے کا واحد راستہ باقی رہ گیا ہے اس سے اتفاق و عدم اتفاق سے قطع نظر دیکھا جائے تو اگر نئی مردم شماری کے مطابق انتخابی فہرستیں ترتیب دے کر حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو اب ایسا ممکن نظر نہیں آتا اس کے لئے انتخابات کو ملتوی کرنا پڑے گا جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اس پر من حیث المجموع آمادہ ہوں گی اس کے باوجود بھی انہونی اور انتخابات کے بروقت انتخابات کے انعقاد بارے شکوک و شبہات کا اظہار کیاجارہا ہے اور نگران حکومت کی ممکنہ طور پر طوالت کے خدشات سامنے آرہے ہیں بہرحال اس سے قطع نظر فی الوقت منظر نامہ بڑا واضح ہے اور حکومت اپنی ذمہ داری کے مطابق نگران حکومت پر مشاورت کر رہی ہے ۔دوسری جانب وزیر داخلہ کا بیان ایک متنازعہ صورتحال کو جنم دینے کا باعث اس لئے بن سکتا ہے کہ اس پر متعدد شراکت داروں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آسکتا ہے خاص طور پر ایم کیو ایم کو یہ عمل قابل قبول نہ ہو گا دیگر جماعتوں کی بھی دانست میں 2017ء کی مردم شماری آبادی کی اصل گنتی کی عکاسی نہیں کرتی ایسے میں حکومت کے اس فیصلے پر سخت تنقید اور مزاحمت ہو گی سوال یہ ہے کہ 2023ء کے ڈیجیٹل مردم شمار کو لاحاصل کیوں سمجھا جارہا ہے مردم شماری کے متناسب سیاسی نمائندگی کے سادہ سوال سے بڑھ کر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک سیاسی بحران کی کوکھ سے نیا سیاسی بحران اور اختلافات جنم لیتا دکھائی دیتا ہے اور اس ضمن میں حکومت کو سخت رد عمل کابھی سامنا کرناپڑے گا مگر دم رخصت حکومت پر دبائو بے معنی ہو گا لیکن اس فیصلے پر قائم رہنے سے بہرحال نئے تنازعات جنم لیں گے اور انتخابات سے ناانصافیوں اور احساس محرومی میں کمی آنے کی وابستہ توقعات پوری نہ ہوں گی۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ