شہری سیلاب کا خدشہ

محکمہ موسمیات کی جانب سے خیبر پختونخوا میں 19سے 29 جولائی تک مو سون بارشوں کانیا سلسلہ شروع ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے شدید بارشوں کے نتیجے میں مختلف وسطی اضلاع بشمول پشاور میں نشیبی علاقے زیر آب آنے کا امکان بعید نہیں بلکہ اس طرح کی صورتحال سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ شہر میں تھوڑی سی بارش کا پانی بھی سیلاب بن جاتا ہے مون سون کی آمد آمد کے موقع پرہی ملک بھر میں تقریباً نوے جانوں کا ضیاع ہوا صرف خیبر پختونخوا میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے بیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ گزشتہ سال بارشوں سے متاثر ہونے والوں کوسب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہوگا جوپہلے ہی بے یارومددگار امداد کے منتظر ہیں یاد رہے کہ گزشتہ موسم گرما کے سیلاب میں 1700 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور تیس بلیں ڈالر سے زیادہ کے گھر ‘ فصلیں ‘ مویشی ‘سڑکیںاور پل بہہ گئے تھے عالمی برادری نے جنیوا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کو دس ارب ڈالر زیادہ تر قرضوں کی صورت میں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھالیکن وہ وعدے کماحقہ پورے نہیں کئے گئے جبکہ حکومت کے پاس اولاً وسائل موجودنہیں دوم یہ کہ دستیاب وسائل وفنڈز اور امداد کی تقسیم کا کام بھی شفاف نہیں بین ا لاقوامی ریسکیو کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب اس سال 9.1 ملین افراد کومتاثر کرسکتا ہے جس سے وبائیں پھوٹ سکتی ہیںاور ایک ایسا ملک جو پہلے یہ خوراک کی عدم تحفظ کا شکار ہو تشویشناک صورتحال بن سکتی ہے ۔ یہ تمام عوامل اپنی جگہ لیکن اس سے بھی مشکل صورتحال یہ ہے کہ درجنوں ادارے اور انتظامی مشینری وقت آنے پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور متاثرین کی دستگیری نہیں ہو پاتی ۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے بے ہنگم تعمیرات او رناقص بنیادی اساس کے باعث ہرسال صورتحال گھمبیر ہوجاتی ہے یہ تو خوش قسمتی سے کراچی اور لاہور کی طرح طوفانی بارشیں نہیں ہوتیں اگر خدانخواستہ ایسا ہوا توپھر شہری سیلاب سے صوبائی دارالحکومت کی بڑی آبادی متاثر ہو گی۔صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تواس طرح کے حالات سے نمٹنے کی تیاریاں دور دور تک نظر نہیں آتیں چند ایک برائے نام اجلاس منعقد کرکے اسے کافی سمجھ لینے کی روایت ہمیں کسی دن بڑے المیہ سے دو چار کرنے کا سبب بن سکتی ہے حکام دیر سے سہی اب بھی جاگ جائیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ بلائے ناگہانی سر پر آنے کے بعد اب کچھ عجلت میں اقدامات اٹھانے کی زحمت گوارا کی جائے گی اور ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افراد کو کسی نہ کسی طور ہنگامی امداد کی فراہمی ہو سکے گی۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ