نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مسئلہ اور نگران حکومت

پاکستان دنیا کے ان چند ہی ممالک میں شامل ہے جہاں مختلف علاقوں اور خطوں میں الگ الگ قانون اور معیار رائج ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد قبائلی علاقہ جات اور پاٹا کے علاقے تھے جنہیں کئی دہائیوں کے بعد کالے قانون سے نکال کر ملکی قانون کے تابع کیا گیا ۔مگر وہ خرابیاں جو ان علاقوں میں رواج پا چکی تھیں ان کا تدارک نہیں کیا گیا ۔اس لیے یہ علاقے آج بھی ترقی کے دھارے سے بہت دور ہیں ۔ ان علاقوں میں غیر قانونی دھندوں کی کھلے عام اجازت دی گئی جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جرائم پیشہ افراد جمع ہوئے ۔اس وقت ان علاقوں میں باقی خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہے اور وہ ہے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا ۔یہ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور ملاکنڈ ڈویژن ، سابقہ قبائلی اضلاع ،گلگت بلتستان، اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چلائی جارہی ہیں ۔ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ ایک طرف ہمارا ملک معاشی بحرانوں کا شکار ہے ہم قرض لے کر گزشتہ قرض کے سود چکا رہے ہیں ۔ اور دوسری طرف آمدنی کا ایک ایسا ذریعہ جس سے بیک وقت ملک کو پچاس ارب روپے سے زیادہ مل سکتے ہیں اس کی طرف توجہ نہیں دے پارہے ۔اگر ہماری حکومت ان گاڑیوں کو ریگولیٹ کردے اور ان پر کسٹم ڈیوٹی لے تو اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا اور سالانہ کی بنیاد پر بھی ٹیکس جمع کرنے میں اضافہ ہوگا ۔ اور اس طرح سمگلنگ کا یہ کاروبار اپنی موت آپ مرجائے گا ۔ یہ کام ہماری سیاسی حکومتیں نہیں کرسکتیں اس لیے کہ سیاست سے وابستہ لوگ ایک تو اس کاروبار سے خود منسلک ہیں دوسری بات یہ کہ ایسا فیصلہ کرنے سے ان کی سیاسی پوزیشن متاثر ہوتی ہے اس لیے عوامی دباؤ کی وجہ سے بھی وہ یہ کام کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔اس لیے اس کام کے لیے نگران حکومت بہتر فیصلہ کرسکتی ہے ۔ چونکہ یہ فیصلہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے اس لیے اس کے کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔نگران حکومت نے ملک میں سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے ہیں ،افغان شہریوںکو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ،ڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے اقدامات کیے ہیں ،کچھ علاقوں میں قبضہ مافیا کو بھی لگام ڈالی ہے ، ذخیرہ اندوزی کو بھی کسی حد تک قابو میں کر لیا ہے ۔اس لیے اگر یہ نگران حکومت ان لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو بھی قانون کے دائرے میں لائے تو یہ ایک تاریخی اقدام ہوگا اور اس سے ملک کا فائدہ ہوگا ۔ ہزاروں گاڑیاں ملک بھر میں بااثر افراد کے زیر استعمال ہیں ،لیکن قانون ان کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرسکتی ،کراچی ، اسلام آباد ، لاہور اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں یہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں۔لیکن چونکہ یہ اشرافیہ کا ملک ہے اس لیے ان کو کھلی چھوٹ ہے ۔ پھر جوگاڑیاں پکڑی جاتی ہیں وہ پکڑنے والے ادارے سپرداری کے نام سے ایک دوسروں اور رشتہ داروںمیں بانٹ دیتی ہیں اور یوں وہ گاڑیاں دوبارہ سڑکوں پر ہوتی ہیں اور حکومت کی اجازت سے ہوتی ہیں ۔کیا یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوتا ہے ۔ ایسا کسی بھی ملک میں ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ وہاں کا قانون سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے ۔دنیا کے کسی بھی ملک میں سرکاری اہلکار کسی بھی اختیار کو اپنے یا اپنی فیملی کے فائدہ یا سہولت کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔مگر ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے ۔اگر نگران حکومت چاہے تو ایک ہی دن میں وہ ساری گاڑیاں واپس ہوسکتی ہیں جو اداروں نے پکڑ کر کسی کو دی ہیں اور ان کو ایک ہی دن میں کھلے عام بولی لگا کر فروخت کیا جاسکتا ہے ۔اس سے بھی ملک کو اربوں روپے کا فائدہ ہوگا ۔ اس ملک کے پاس وسائل بہت ہیں لیکن یہ وسائل چندلوگ کے ذاتی فائدے کی نذر ہوجاتے ہیں اس کا ملک کوفائدہ نہیں پہنچتا ۔اس وقت ملک میں نگران حکومت کسی کا بھی پریشر لیے بغیر فیصلے کررہی ہے اور ریاست اس کی پشت پر کھڑی ہے ۔ یہ وہ موقع ہے جس میں یہ اچھا کام بھی کیا جاسکتا ہے ۔اس کے کئی فائدے ہوں گے ۔ اس سے اربوں روپے ملک کے خزانے میں جمع ہوں گے، ان کے رجسٹرڈ ہونے سے سالانہ اربوں روپے ملک کے خزانے میں آئیں گے ۔ جن اضلاع میں یہ ہیں ان کی سڑکوں پر بے تحاشا رش کم ہوگا اس لیے کہ یہ گاڑیاں ملک کے دیگر شہروں تک بھی جاسکیں گی۔ سمگلنگ کا راستہ بند ہوجائے گا ۔ ان گاڑیوںکو غیر قانونی کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے اس سے چھٹکارا مل جائے گا ۔ یہ جو ان علاقوں میں اس غیر قانونی کاروبار سے وابستہ جرائم پیشہ افراد کا ایک مافیا بن چکا ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ان گاڑیوں کی نام پر ملک سے ہزاروں گاڑیاں چرا کر ان علاقوں میں پہنچاکر ان کو نان کسٹم پیڈ ظاہر کرکے فروخت کیا جاتا ہے چونکہ وہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے اس لیے ان چوری کی گاڑیوں کو پکڑنے کا کوئی انتظام نہیںہوتا اور ملک میں گاڑیوں کی چوریوں میں اس وجہ سے اضافہ ہورہا ہے ۔ان کو رجسٹرڈ کرنے سے ملک میں گاڑیاں چوری کرنے اور چوری شدہ گاڑیوں کی بازیابی ممکن ہوجائے گی ۔ان گاڑیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سپیر پارٹس بھی سمگلنگ کے ذریعے ان علاقوں تک آتے ہیں جس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس سے اسمگلنگ کا وہ ذریعہ بھی بند جائے گا۔اس کاروبار سے وابستہ لوگ منی لانڈرنگ اور ہنڈی حوالہ میں براہ راست ملوث ہیں ۔اس لیے کہ اس کاروبار میں بنکنگ چینل سے پیسے بھیجوائے اور وصول نہیں کیے جاسکتے ۔اگر ان کو قانون کے دائرے کے اندر لایا جاتا ہے تو یہ منی لانڈرنگ اور ہنڈی حوالہ کا کاروبار بھی ازخود ختم ہوجائے گا ۔ یہ گاڑیاں اس ملک کے سسٹم کے منہ پر لگی وہ کالک ہے جسے دھونا بہت ضروری ہے ۔ اس لیے کہ دس لاکھ سے زیادہ گاڑیاں ملک کی سرحدوں سے گزرکر اس ملک میں آنا اور پھر بلوچستان سے ہزارو ں میل دور ملاکنڈ میں پہنچنا اس بات کی دلیل ہے کہ سرحدوں کی صورتحال کیا ہے اور ملک کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں یا اس کام پر متعین لوگوں کی حیثیت کیا ہے اس ملک میں قانون کی اہمیت اور حیثیت کیا ہے ۔اور اس ملک کا انتظام سنبھالنے والے کتنے کمزور اور کرپٹ ہیں ۔جو نہ گاڑیوں کی سمگلنگ روک سکتے ہیں نہ چینی کی سمگلنگ اور نہ ہی غیر قانونی طور پر اس ملک میں آنے والے لوگوں کو روک سکتے ہیں ۔تو پھر ان کی ضرورت کیا ہے جو حکومت سے تنخواہ لے کر وہ کام کررہے ہیں جس کو روکنے کے لیے ان کو تعینات کیا گیا ہے ۔ سیاسی حکومتیں جو اس ملک میں آتی ہیںوہ ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے سے کتراتی ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا وہ ذاتی فائدہ کے لیے ملکی وسائل کا استعمال کرتی ہیں اور رخصت ہوجاتی ہیں ۔ موجودہ نگران سیٹ اپ نے جو چند ایک بہتر کام شروع کیے ہیں اگر سیاسی حکومت آکر ان کو جاری رکھتی ہے تو یقینا بہتری آئے گی ۔ اور اگر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مسئلہ بھی حل کرکے یہ نگران حکومت رخصت ہوتی ہے تو ہم کہہ سکیں گے واقعی پاکستان میں ایک نگران حکومت آئی تھی جو پاکستان کاسوچ رہی تھی ۔افغانستان کی وجہ سے ہمارے ملک میں جوخرابیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ ان کو دور کیے بغیر ہم ترقی کا سفر شروع ہی نہیںکر سکتے ۔ ان نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور منشیات کے کاروبار کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس لیے کہ منشیات سے حاصل ہونا والا زیادہ پیسہ اس کاروبار میں لگایا جاتا ہے افغانستان سے جو اربوں ڈالر وں کی منشیات دنیا بھر میںسمگل کی جاتی ہے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کسی جائز کاروبار میں نہیں لگایا جاتا اس لیے یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس میں باآسانی وہ پیسہ سفید کیا جاتا ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جو گاڑی دبئی میں مہنگی اور پاکستان میں سستی ہو اور وہ بھی راستے اور دیگر اخراجات کے بعد بھی۔ یہ بہت سادہ سا عمل ہے منشیات کے بدلے پیسوں کی جگہ یہ گاڑیاں دی جاتی ہیں جن کو پاکستان میں بیچ کر منشیات کے اسمگلر باآسانی اپنا پیسہ وصول کرلیتے ہیں اور ان پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھاتا کہ یہ پیسہ منشیات کے کاروبار سے آیا ہے بلکہ قبائلی علاقوں میں تو اسے ایک حلال کاروبار کی حیثیت حاصل ہے ۔اس لیے اس کاروبار سے وابستہ لوگ منشیات کی اسمگلنگ نہایت سہولت سے کرتے ہیں اور اپنا کالا دھن بھی ان گاڑیوں کی صورت میں وصول کرتے ہیں ۔اس لیے اگر اس سلسلہ کو بند کیا جائے تو اس سے منشیات کا کاروبار بھی تقریباً ختم ہوجائے گا ۔پاکستان کی ترقی کی راہ میں منشیات کا کاروبار بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے اس لیے کہ اس کاروبار سے وابستہ افراد ان علاقوں میں بدامنی پھیلاتے ہیں جن جن علاقوں سے یہ سمگلنگ کرتے ہیں اس لیے کہ بدامنی میں ان کو منشیات اسمگل کرنے میں سہولت رہتی ہے ۔اس لیے دنیامیںوہ ممالک ترقی نہیں کرتے جن کی اشرافیہ ان دھندوں میں ملوث ہوتی ہے۔اگرآپ کو شک ہو تو افغانستان ، بولیویا ، برازیل ، کولمبیا ، لائوس ،، میکسیکو ، نائیجیریا ،فلیپائن،پاکستان سب کو دیکھ لیں ان کی ترقی کا گراف ہمیشہ منفی میں ہی ہوتا ہے ۔اس لیے گزارش ہے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں اس کی فکر کریں کہ دنیا میں ملک کی عزت ہوگی تو آپ کی ہوگی ۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟