انسداد دہشت گردی کے عزم کا اعادہ

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ریاست کے سوا کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے۔آرمی چیف نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کے خاتمے کے لئے علما ئے کرام کے فتویٰ ”پیغام پاکستان” کو سراہا ہے۔ آرمی چیف نے فکری اور تکنیکی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تفہیم اور کردار سازی کے لیے نوجوانوں کو راغب کرنے میں علمائے کرام کے کردار کا بھی حوالہ دیا۔اس موقع پر علما کرام نے کہا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اور بعض عناصر کی طرف سے مذہب کی مسخ شدہ تشریحات صرف ان کے ذاتی مفادات کے لئے ہیں جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے،فورم نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، سرحد پر نقل و حرکت کے لئے پاسپورٹ اور ویزا سسٹم کے نفاذ، انسداد سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔ علاوہ ازیں فورم نے افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان کے موقف اور تحفظات کی مکمل حمایت کی اور پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے افغانستان پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا۔اس بارے دوسری رائے نہیں کہ نوجوانوں کی درست رہنمائی اور ذہن سازی خاص طور پر بعض عناصر کی طرف سے بعض دینی امور کی ایسی من پسندتشریح جسے وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اس قسم کی منفی ذہن سازی اور من پسند تشریحات کے مقابلے میں اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنا علمائے کرام کی اولین ذمہ داری ہے جس پر مزید توجہ کی ضرورت ہے بہرحال آرمی چیف اور علمائے کرام کی جی ایچ کیو میں ملاقات اور اس موقع پر صورتحال بارے مشاورت اور اتفاق رائے جاری صورتحال کے تناظر میں بطور خاص اہمیت کاحامل ہے قبل ازیں اسلامی نظریاتی کونسل کے پلیٹ فارم سے جید علمائے کرام کی جانب سے پیغام پاکستان جاری کیاگیا تھا جس پر آٹھ سو علمائے کرام کے دستخط تھے جس میںحکومت، فوج، سکیورٹی اداروں کو غیر مسلم قرار دینا اسلام کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا تھا۔ ضابطۂ اخلاق میں کہا گیاتھا کہ حکومت، فوج، سیکورٹی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے، یہ فعل بغاوت کے مترادف اور اسلامی احکام و شریعت کے مطابق ”حرام”ہے۔ حسب سابق علمائے کرام کی جانب سے خوارج اور غلط فہمی کا شکار دیگر افراد کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے بالخصوص اور جملہ اہل وطن کے لئے پیغام کے بعد غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہئے اس سوال پر کہ عام لوگ تو اس طرح کے واقعات میں ملوث ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو صرف اتنا کافی نہیں بلکہ اصولی طور پر ہر محب وطن شخص کو اس ضمن میں تعاون و اعانت کا کرداربھی ادا کرنا چاہئے دہشت گردوں کے حوالے سے علمائے کرام کے خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں علمائے کرام نے ضرورت پڑنے پر ہر وقت متفقہ طور پر شریعت کے احکامات کی روشنی میں ان عناصر کے حوالے سے جرأ ت مندانہ انداز میں اپنی رائے دی ہے۔آرمی چیف کا خطاب بھی پیغام پاکستان سے عبارت ہے علمائے کرام کی آرمی چیف سے ملاقات میں معاشرے کے بعض افراد کی غلط فہمی پر مبنی خیالات کی اصلاح اور اسلامی نقطہ نظرسے مکرر آگاہی کی سعی کی گئی ہے جملہ صورتحال کے تناظر میں اب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا اس پر اب قوم متفق ہو چکی ہے دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں کیونکہ پرامن طور پر قضیہ نمٹانے کے حوالے سے پوری طرح اتما م حجت ہو چکی ہے یہاں تک کہ جید علمائے کرام کابل جا کر بھی اس کی سعی کر چکے ہیں لیکن دوسری جانب کے عناصر نہ تو پاکستانی علمائے کرام کے وفد کی معروضات پر کان دھرنے اور نہ ہی افغان حکومت کے امیر کی ہدایات اوربیعت کا پاس رکھنے کے روادار ہیں ایسے میں اصولی طورپر تو دونوں ممالک میں بیک وقت اور اتفاق سے ان عناصر کو پوری طرح مطیع بنانے یا پھر ان کی مکمل سرکوبی کی جائے جو فساد اور شرانگیزی ہی کے انسداد کے لئے ضروری نہیں بلکہ ملک میں باربار ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لئے ناگزیر ہے ۔ جہاں تک داخلی صورتحال کا تعلق ہے اس حوالے سے بہت عرصہ قبل ملکی سطح پر سیاسی و عسکری قیادت اور علمائے کرام کے درمیان جو قومی اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے نکات طے کرکے اس پر عملدرآمد کا عزم ظاہر کیا گیا تھا اس کے اکثرنکات پر عملدرآمدہنوز باقی ہے۔ اب جبکہ ایک مرتبہ پھر ملک میں اس حوالے سے مباحث اور اقدامات کا عندیہ دیا جارہا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان متفقہ نکات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجوہات کا بھی جائزہ لیا جائے اور ان پر پوری طرح عملدرآمد کی طرف بھی پیش رفت کی جائے تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے ۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے