بارشوں میں پتنگیں اڑایا کرو

کہتے ہیں دوسروں کی طرف انگلی اٹھانے والے کو احساس نہیں ہوتا کہ مٹھی بند کرکے صرف ایک انگلی سے دوسروں کی جانب اشارہ کرنے والے کی اپنی ہی مٹھی کی تین انگلیاں خود اس کی جانب ہوتی ہیں ‘ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست میں صورتحال کچھ اسی کیفیت کی نشاندہی کرتی ہے مگر اشارہ بازوں کو صرف اپنی اشارہ کرتی ہوئی انگلی ہی دکھائی دیتی ہے اور خود کو”منزہ عن الحظائ” کے مقام پر مسند نشین سمجھتے ہوئے ”صاف ‘ شفاف” بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ ویسے بھی سیاسی میدان اور خاص طور پر انتخابی اکھاڑے میں اترتے ہوئے لوگ ممکنہ مخالفین کے بارے میں تو” دامن یزداں چاک” والا اصول اپناتے ہیں مگر”اپنا گریباں چاک” سے کوئی تعرض نہیں کرتے حالانکہ دوسروں کی جانب اشارہ کرنے سے پہلے اگر یہ لوگ اپنے گریبان کو ٹٹولیں توشاید اپنی انگلی کوکسی دوسرے کی جانب ”اشاروںکی زبان” بنانے سے احتراز کریں ‘ ہماری سیاست کا اصول یہ بھی ہے کہ کل تک دوست رہنے والے جب آنے والے کل کے اقتدار پر نظریں جماتے ہیں تو اچانک ان کی کایا کلپ ہو جاتی ہے اور پھر ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیتے ہیں ‘ یہی حالات آج کل ہمارے سیاسی حلقوں کو درپیش ہیں ‘ گزشتہ روز تک ایک ہی گھاٹ ”چرنے اورپانی پینے”سے ہر طرح مستفید ہونے والوں سے کچھ مثالیں پیش کرنے کی اجازت دیجئے ‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ز رداری ان دنوں لیگ نون پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے اسے ”پاکستان مہنگائی لیگ” کے نام سے موسوم کر دیا ہے ‘ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اتحادیوں کی حکومت میں مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی ‘ مگر اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری صرف نون لیگ پر عاید کرنا وہی اپنا گریبان چاک سے آنکھیں بند کرتے ہوئے دامن یزداں چاک والی صورتحال ہے حالانکہ اگر شہبازشریف بحیثیت وزیر اعظم اتحادی جماعتوں کی حکومت کے حوالے سے مہنگائی کے ذمہ دار قرار دیئے جا سکتے ہیں تو اتحادی حکومت میں شامل دیگر تمام جماعتوں کو بھی ان حالات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ اور کڑوا کڑوا تھو تھو ‘میٹھا میٹھا ہپ ہپ کا کوئی جواز نہیں بنتا ‘ اگر نون لیگ مہنگائی کے لئے ذمہ دار قرار دی جا سکتی ہے تو اس کے ساتھ حکومت کے مزے لوٹنے والے کیونکر نظر انداز کئے جا سکتے ہیں؟ بلاول زرداری کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کے امیر اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کاموقف زیادہ سنجیدہ ‘ باوقار اور مبنی برحقیقت لگتا ہے جنہوں نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ ہم نے ملکی معیشت کو بچایا ہے ‘ اور دیکھا جائے تو جن حالات سے پی ڈی ایم کو اقتدار ملا آئی ایم ایف کے شدید دبائو قرضے نہ دینے کی ضد اور ہٹ کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کے ملکی معیشت کے اندر جان بوجھ کر بارودی سرنگیں بچھانے کی حکمت عملی نے ملک کو ڈیفالٹ کے شدید خطرات سے جس طرح دوچار کر رکھا تھا ‘ ان حالات میں یا تو ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے پر توجہ دی جاتی اور آئی ایم ایف کی ”ہدایات” پر عمل کرنے کی مجبوری کو برداشت کیا جاتا یا پھر خدانخواستہ ملک کی ”نیاڈبو دی جاتی” مگر اب جبکہ کل کے سارے حلیف انتخابی میدان میں ”حریف” بن چکے ہیں تو صرف ایک جماعت کو تمام تر مسائل کاذمہ دار قراردیتے ہوئے اپنے گریباں میں جھانکے بغیر الزامات کا طومار باندھنے کاجواز معاف کیجئے گا ‘ منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے حالانکہ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ صورتحال کا پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے ہر قسم کی ذمہ داری میں شامل ہونے کا اقرار کیاجائے ۔ یعنی بقول مرزا غالب
دھمکی میں مرگیا جونہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
اسی نوع کی ایک اور مثال پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹرین کے نام سے تحریک انصاف (اصلی والی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے سابق وزیر ا علیٰ خیبر پختونخوا اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کی ہے جواپنی جماعت کے قیام سے پہلے اور اب تواتر کے ساتھ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مختلف النوع الزامات کی سان پر رکھتے ہوئے تمام ترخرابیوں کی جڑ قرار دیتے نہیں تھکتے ‘ یہاں ہمیں ایک ذاتی وضاحت کرنے کی اجازت دیجئے اور وہ یہ کہ ہم عمران خان کی پالیسیوں کے ہمیشہ سے ناقد رہے ہیں تاہم جہاں تک پرویز خٹک کے الزامات کا تعلق ہے اس حوالے سے ہم اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں کرنا چاہتے اگرچہ موصوف کے بیانات سے ہماری ”رگ کالمانہ” کسی نہ کسی نکتے پر پھڑکتی بھی رہی ہے اور ہم چاہتے بھی تھے کہ ان کے بیانات کی سرجری کی جائے لیکن پھر خود کو بڑی مشکل سے روکنے میں کامیاب ہوئے کہ ہمیں ذاتی طور پر نہ کسی کی مخالفت سے واسطہ رہتا ہے نہ بے جا حمایت کر سکتے ہیں اس لئے پرویز خٹک کے بارے میں ہم ان کے سیاسی مقابل یعنی اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی کے بیان سے استفادہ کرتے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ پرویز خٹک اور محمود خان کا بھی احتساب ہونا چاہئے ‘ دونوں سابق وزراء اعلیٰ جب تک اقتدار میں تھے تب تک عمران ایماندار اور سچا تھا ‘ اقتدار ختم ہوا تو برائی آگئی ویسے امیر حیدر خان ہوتی نے تحریک انصاف کے سابق وزرائے اعلیٰ کے احتساب کاجو مطالبہ کیا ہے اس کا جواب بھی انہوں نے خود ہی یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ ایک پریس کانفرنس سے ساری چوریوں کو معاف کرنا کسی صورت قبول نہیں کریں گے ‘ یعنی بیان کے اس حصے میں انہوں نے”معافی” کی وجوہات بھی بتا دی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت سے انکار بھی کردیا ہے حالانکہ کہتے ہیں کہ مبینہ طور پر”پریس کانفرنسوں” کے ذریعے معافیاں پلیٹ میں پیش کرنے کا سلسلہ فارسی کے اس مقولے کی طرح ہے یعنی ”گر قبول افتدز ہے عزوشرف” اور اس حوالے سے ہمارے مرحوم دوست مقبول عامر نے داستان شریں ‘ فرہاد کے ناتے صورتحال کی وضاحت اپنے ایک شعر میں یوں کردی ہے کہ
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
امیر حیدر خان ہوتی نے ایک اور بیان میں گزشتہ روز کے اخبارات میں چھپا تھا انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ جنات کے ذریعے ووٹ پول کرنے کے عمل کو قبول نہیں کیاجائے گا بلکہ انتخابات وہ قبول ہوں گے جن میں جنات نہیں ‘ انسان ووٹ ڈالیں گے جہاں تک جنات کے ووٹ پول کرنے کاتعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کی ابتداء توقیام پاکستان کے بعد سابق صوبہ سرحد کے ”مرد آہن” نے کرائی تھی اور اس وقت اس کو”جھرلو” کا نام دیاجاتا تھا اس حوالے سے ایسے ایسے لطیفے موجود ہیں کہ جنہیں سن کر خامہ انگشت بہ دنداں والی کیفیت سامنے آتی ہے بعد میںاسے سائنسی درجے پر فائز کرتے ہوئے جنرل ایوب خان نے مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑتے ہوئے مبینہ طور پرایسے ووٹ بنوائے تھے جن میں چارامیدواروں کے نام اس ترتیب سے لکھے تھے کہ سب سے اوپرایوب خان اور سب سے نیچے محترمہ فاطمہ جناح کانام تھا ‘ ان پرچیوں میںایسے کیمیکل کے مبینہ طورپر استعمال کے الزامات سامنے آئے تھے کہ ووٹ پراگر مادرملت کے نام کے سامنے خانے میں کراس کا نشان لگایا جاتا تو پرچی کوتہہ کرنے سے وہ نشان خود بخود(اسی کیمیکل کی وجہ سے )ایوب خان کے نام کے سامنے خانے میں منتقل ہوجاتا۔ سازشی تھیوریوں میں ترقی ہوتی گئی اور نت نئے طریقے ایجاد ہوتے چلے گئے کہیں توواقعی ”جنات یا فرشتے” پولنگ کے دن متحرک ہوجاتے اور آخری انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھانے کی”جناتی” کارروائیوں سے انتخابات چرانے کی کوششیں بھی جب مکمل کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں تو پھر ”جناتی اڑن کھٹولے” کی سواری سے کام لیتے ہوئے آزاد امیدواروں کے گلے میں”پٹے” ڈالے گئے بہرحال اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور کچھ ”سیاسیان” بھی زیادہ ہوشیار ہو چکے ہیں اور جنات کی مداخلت کوقبول کرنے کو تیار نہیں ہیں مگر وثوق سے پھربھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اب کی بار کونسی سائنسی تگڑم بازی ہونے کے امکانات یا خدشات سراٹھا سکتے ہیں؟ کیونکہ اب تو عوام ماضی کی طرح نہ ایک کروڑ نوکریوں کے جھانسے میں آنے کو تیار ہیں نہ پچاس لاکھ گھروں کے خواب پلکوں پر سجانے کے بیانئے کو قبول کریں گے اس لئے تمام جماعتوں کواپنے منشور عوام کے سامنے رکھتے ہوئے معروضی حالات کو مد نظر رکھنا پڑے گا۔اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور”ٹین کمانڈمنٹس” کی مانند سنبھال کر رکھیں تاکہ آنے والے دنوں میں اپنے انتخابی وعدوں سے پھر جانے والوں کا محاسبہ کرنے میں انہیں زیادہ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے اگرچہ عوام بے چاروں کی حالت تو اب بھی یہی ہے کہ بقول فرحت عباس شاہ
میں نے پوچھا ‘ مری جاں کیسے ہو؟
اس نے ہولے سے کہا ‘ ”خوفزدہ”!
شیخ رشید کا کہنا ہے کہ انہیں نظر لگ گئی ہے اب اس عمرمیں انہیں(خود اپنے سوائ) کون نظر لگائے گا ‘ جس پر محمد رفیع کا مشہور گانے کاایک مصرعہ یاد آگیا ہے کہ ”کہیں خود کی نظر نہ لگے ‘ چشم بد دور” تاہم ان کے ”چلے” والے بیان کے بعد ان کے ساتھ مبینہ سلوک کے حوالے سے جو مختلف بیانئے مارکیٹ میں گردش کر رہے ہیں ان کے حوالے ے (تھوڑے کو زیادہ جانتے ہوئے) یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ
نظر لگے نہ کہیں”ان” کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کودیکھتے ہیں
بلاول زرداری نے بڑی اچھی بات کی ہے کہ ”سیاسی بابوں” کو گھر بٹھا کر نئی جوان سیاسی قیادت کو آگے لایا جائے لگے ہاتھوں اگر وہ اس”نیکی” کا آغاز”اول خویش ‘ بعد درویش” کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہی گھر آنگن سے کریں اوراپنے بزرگوار یعنی اپنے والد محترم آصف علی زرداری کو مجبور کریں کہ وہ سیاست ترک کرکے گھر بیٹھ جائیں تو ممکن ہے دوسرے ”بابے” بھی ان سے متفق ہو کرخود ہی سیاست سے کنارہ کش ہونے کے بارے میں سوچیں ‘ تاہم تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا اس پر آنے والے کالم میں روشنی ڈالیں گے۔
زندگی کیا ہے خود ہی سمجھ جائو گے
بارشوں میں پتنگیں اڑایا کرو

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟