سرکاری دفاترمیں کیمروں کی تنصیب

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جسٹس (ر)سیدارشادحسین شاہ نے عوام کومؤثراورشفاف اندازمیںخدمات اور سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ایک اہم اقدام کے طور پرصوبہ بھرکے پٹوارخانوں، تحصیلدار، اے سی،ڈی سی،ڈی پی او،ڈی ایس پی آفیسرزاور تھانوںمیںلائیوکیمرے(انٹرنیٹ پروٹوکول کیمرے)نصب کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کورواں ماہ کے آخر تک مذکورہ دفاترمیںکیمروں کی تنصیب کاعمل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے،جبکہ کیمروں کی براہ راست مانیٹرنگ کیلئے مرکزی مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیاہے اوران کیمروںتک چیف منسٹراور چیف سیکرٹری آفس کوآئی پی نیٹ ورک کے ذریعے براہ راست رسائی دینے کی ہدایت کی ہے تاکہ دفاترمیںعوام کوخدمات کی فراہمی کے عمل کی براہ راست نگرانی ممکن ہوسکے،امرواقعہ یہ ہے کہ جن دفاتراور اداروںمیں مانیٹرنگ کیلئے کیمروں کی تنصیب اور ان کیمروںکوانٹرنیٹ پروٹوکول کے تحت براہ راست چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری آفسز کیساتھ منسلک کرنے کافیصلہ کیاگیاہے،ان میں اکثراداروںاور دفاترمیں عوام کے ساتھ روارکھے جانے والے سلوک پر اکثروبیشترسوال اٹھتے رہتے ہیںاور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام متعلقہ دفاتراور اداروںمیں کام کرنے والے افسران سے لیکر نیچے عملے تک(بہ استثنائے چند)کارویہ عوام کے ساتھ ہمدردانہ اور بطورسرکاری ملازمین واہلکاروںکے خدمات گزارانہ کے بالکل برعکس مبینہ طورپرافسرانہ اور معاندانہ ہوتاہے اور پہلے توعوام کی جائزشکایات کی شنوائی تک نہیں ہوتی اور جہاں شنوائی کی نوبت آتی ہے تو اس کے پیچھے چند دیگرعوامل کارفرماہونے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں،جن کی وجہ سے عوام یاتوان اداروںاور محکموںمیں کام پڑنے کے باوجودان سے دور رہنے کوترجیح دیتے ہیں،یاپھرتگڑی سفارش ڈھونڈتے ہیںجبکہ سفارش کے باوجودمبینہ طورپرمتعلقہ حکام اور اہلکاروں کی خوشنودی کیلئے میزکے نیچے کی کارروائی لازمی ہوتی ہے،اور لوگوں کے جائز کاموں میں بھی رخنے ڈالے جاتے ہیں،تاہم اس میں قطعاًکوئی شک نہیںکہ ہاتھ کی پانچوںانگلیوںکی طرح ہرافسراور اہلکاریکساں روئیے کاحامل نہیں ہوتے اور اچھے، عوام کی خدمات سے سرشاررویوںکے حامل افراد کی بھی کوئی کمی نہیںہے جوبغیرکسی طمع کے خندہ پیشانی سے اپنی ذمہ داری اداکرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتے۔بہرحال نظربہ نظریہ ایک اچھافیصلہ ہے اور ان متعلقہ دفاتراور اداروں میں کیمروں کی تنصیب اور ان کوآئی پی پروٹوکول (وائرلیس سسٹم)کے ذریعے وزیراعلیٰ ہاؤس اور چیف سیکرٹری آفس کیساتھ منسلک کرنے سے متعلقہ محکموں،دفاتراور اداروں کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب ہونے کوخارج از امکان قرارنہیں دیاجاسکتا،تاہم یہ دیکھناضروری ہے کہ جہاں جہاںیہ کیمرے نصب کئے جائیں وہاںایسے لوگوں پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوگی جوروایتی سست روی،کام چوری اور دیگرایسے رویوں کے حامل ہوتے ہیں اور کہیں (بہانہ بناکر)کیمروں کووقتاًفوقتاًبند کرنے کی کوشش سے اس نظام کوناکامی سے دوچار کرنے کی روایتی عادت کاشکارنہ ہوں،دوسرااہم پہلواس مسئلے کایہ ہے کہ جوکیمرے اس مقصد کیلئے خریدے جائیں جو نہ صرف کم از کم 8میگاپکسل طاقت کے ہوں(ذیادہ کی کوئی قید نہیںہونی چاہیئے)بلکہ آجکل جدیدٹیکنالوجی کے تحت نائٹ ویژن کیمرے بھی مارکیٹ میںدستیاب ہوتے ہیں جواگرکسی وجہ سے کسی وقت بجلی لوڈشیڈنگ ہونے سے کمروںکے اندرروشنی کم ہوتب بھی ان نائٹ ویژن کیمروں کارزلٹ بہت شاندار ہوتاہے اور ان سے کچھ بھی چھپا نہیں رہ سکتا،دیگر یہ کہ تمام متعلقہ دفاتراور اداروںکے سربراہان کواس بات کا پابندبنایاجائے کے کسی بھی وقت کیمروںکی بندش کابہانہ قبول نہیں کیاجائے گااور اس دوران کوئی شکایت سامنے آئی تومتعلقہ انچارج افسراس کیلئے ذمہ دارقراردیاجائے گا۔امیدہے کیمروںکی خریداری کے وقت کیمروںکی کوالٹی کوملحوظ خاطررکھاجائے گاتاکہ کسی کوکوتاہی کااحتمال نہ رہے۔

مزید پڑھیں:  کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری