”آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا”

انسان دوستی کے جذبات ”ہوا” ہوئے۔ برادر کشی کے دھندے نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔کیا ایک بار پھر سرائیکی وسیب پر 1980ء کی دہائی کے منحوس سائے منڈلارہے ہیں؟ سوال بہت سادہ ہے اور سر منڈواتے ہی اولے نہ پڑیں تو جواب یہ ہے کہ ”نفرتوں کا بیوپار کرنے والوں سے امن کی بھیک مانگتا سماج اپنے قدموں پر چند قدم بھی نہیں چل سکتا”۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ ہر رائے صائب ہوتی ہے اور انکار جرم؟ معاف کیجئے گا ہمیں محبتوں، علم، امن، بھائی چارے اور باہمی اعتماد کی ضرورت ہے۔ ان سب سے زمین زادوں کو محروم رکھنے کی سازشوں کے تانے بانے کون بْن رہا ہے اس پر لمبی چوڑی بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ اور بھی کام ہیں زمانے میں نفرتیں بونے کے سوا۔ ہم نفرت کرتے ہی کیوں ہیں؟ جب کبھی یہ سوال بھوکی ڈائن کی طرح منہ پھلائے آن کھڑا ہوتا ہے تو مجھے فقیر راحموں کی برسوں پرانی بات یاد آجاتی ہے۔ کہا ”ملاوٹ شدہ اشیاء اور نظریات ہر دو نے ہم سے حسن زندگی سے عبارت محبت کا جذبہ چھین لیا ہے”۔ بات تو سچی ہے پر منواکر دیکھ لیجئے، مجال ہے کوئی اقرار میں سر کو جنبش دے۔ یہاں سب باون گزے ہیں۔ پونے پانچ فٹ والا کیا اور لگ بھگ 6 فٹ والا کیا۔ مجھے تلسی داس یاد آئے۔ شاگرد نے سوال کیا، لوگ زندگی کو نرگ (جہنم) کیوں بنالیتے ہیں؟ تلسی بولے ”اپنے کج چھپانے کے لئے بے نسبے اودھم مچاتے ہیں”۔ ہائے یہی تو مرض لاعلاج ہے۔ کوئی چارہ گر ملا بھی تو ہم نے اسے قبر تک پہنچاکر دم لیا۔ زندگی کے روگ، تماشے اور کور چشمی ان سب کو بڑے شوق سے پالتے ہیں۔ شوق کا مول تھوڑا ہی ہوتا ہے۔
بہت سال ہوتے ہیں ”صحیفہ سجادیہ” میں پڑھا تھا سید الساجدین حضرت امام زین العابدین فرماتے ہیں ”جس دن لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ مخلوق سے محبت خالق تک لے جاتی ہے اس دن کرہ ا رض پر امن قائم ہوجائے گا”۔ اب یہاں کتنے ہیں جنہیں خالق تک جانے کے رستے کی تلاش ہے حالانکہ پْرکٹھن رستہ ہرگز نہیں۔ اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی عادت ڈالئے بندگان خدا۔ اسی لئے حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا ”آگہی کا حق اس طور ادا ہوتا ہے کہ اس کے بندوں سے محبت کی جائے۔ عقل سلیم عطاء کرنے والے نے فقط بندوں سے محبت ہی تو چاہی ہے”۔ یہ بندوں سے محبت کا اعجاز ہی تو ہے کہ سیدی بلھے شاہ نے گورو ارجن سنگھ کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا ”بندے مارنے کے کھیل سے تخت کی چولیں مضبوط بنانے والے تخت کے ساتھ قبروں میں اتریں گے”۔ اتر گئے قطار اندر قطار کس کو یاد ہے کون کون شاہ رہا اس زمین پر مگر بلھے شاہ یاد ہے۔ وہی جس نے ایک اور موقع پر کہا ”ڈھانے کی سب چیزیں ڈھادو، یوں توڑو کہ کرچی کرچی ہوجائے سب لیکن اک بندے کا دل نہ توڑنا دل میں رب رہتا ہے”۔ ہم عجیب لوگ ہیں ناں، دلوں کو توڑنے سے مہم جوئی کا آغاز کرتے ہیں اور پھر چل سو چل۔ فرزند شیراز، حافظ شیرازی نے کہا تھا ”زندگی کے جھمیلوں سے وقت بچاکر سسکتے ہوئے لوگوں کی دلجوئی ہی مقصد زندگی ہے”۔ مگر کیا کریں ہم ان لوگوں کا احساس برتری کی بیماری جنہیں ٹک کر نہیںبیٹھنے دیتی۔ صاحب میں تو مرید سرمد ہوں۔ عالمگیری عہد کے اس مقتول نے کہا تھا ”یہ دنیا تو بس ایک امتحان گاہ ہے۔ اپنا اپنا پرچہ امتحان لئے ہر کس و ناکس آتا ہے”۔ عین ان سموں سید عبدالحمید عدم یاد آجاتے ہیں۔ کہا ”ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے”۔ سامت نے سولی چڑھنے سے چند ساعتیں قبل میدان میں جمع ہجوم کی طرف آنکھ بھر کے دیکھا اور کہا ”یاد رکھو انسان مارنے سے نہیں مرتا، ہاں نفرت اور تعصب دیمک کی طرح اسے چاٹ لیتے ہیں۔ میں کچھ دیر بعد سولی پر چڑھادیا جائوں گا مگر زندگی میرے لئے ہے اور رسوائی طیامس کے لئے”۔
بات تو سچی کہی اس دانا نے۔ ذانواس کے چہیتے شاگرد سامت نے۔ اس کا استاد بھی کمال کا انسان تھا۔ مکتب کے شاگردوں نے پوچھا ”علم افضل ہے یا محبت؟”۔ ذانواس نے سعادت مند شاگردوں سے کہا ”علم سے محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ بندے کی تخلیق کا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ خیروبھلائی کے لئے ثابت قدم رہے”۔ خیروبھلائی!اب ہمارے یہاں یہ خاصے کی چیزیں ہوگئی ہیں، کچھ کے نزدیک وقت کا ضیاع۔ ارے کون بتائے ان کج فہموں کو کہ فقیر راحموں نے کہا تھا ”روشنی اور ہوا، علم اور محبت یہ قید کب کئے جاسکتے ہیں۔ یقین کامل کی دولت سے مالامال ایک شخص بھی عہد کو تبدیل کردیتا ہے”۔ ہمیں تو بس اسی ایک شخص کی تلاش ہے۔ یہ بونے اور بوزنے ہمیشہ مسلط تو نہیں رہیں گے۔ صدا تو ہردم سنائی دے رہی ”زمانے(عصر) کی قسم انسان خسارے میں ہے”۔ ارے ہاں صاحب انسان ہو تو خسارے کا احساس بے چین کرے۔ غالب کے بقول:
پس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انسان سازی کا عمل اصل میں ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھتا ہے جو علم و آگہی کی دولت سے مالامال ہوتا ہے۔ اسی لئے تو چند تھڑدلے انسان سازی سے نسل در نسل دشمنی نبھاتے چلے آرہے ہیں۔ بندہ تو بندے کا ویری ہوتا ہے اور بندہ انسان بن جائے تو خیر خواہی کے جذبات اسے قربان ہونے کا جذبہ عطا کرتے ہیں۔ اب کون سمجھائے کہ غربت کفر کا دروازہ کھولتی ہے اور پھر صورت یوں بھی بنتی ہے کہ:
رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی
تاریخ کے اوراک الٹ پلٹ کر دیکھ لیجئے، مْلا، ربی، پادری، سادھو سنت، کاہن، گرنتھی یہ سارے اپنے اپنے عصر (زمانے) کے مالدار طبقوں کے اتحادی بنے۔ غربت و مفلسی کو اعلیٰ درجہ کی سعادت قرار دیتے ہوئے شاکروصابر رہنے کی تلقی کرتے ہیں۔ کوئی پوچھ لے ان سے کبھی ”حضرت” غربت و مفلسی اگر اعلیٰ درجہ کی سعادت ہے تو پھر مال جمع کرنے اور سانپ بن کر بیٹھ جانے کی ہوس و سوچ نے تو جہل کی کوکھ سے جنم لیا ہوگا؟ پوچھ لیجئے اگر گردن مروانے کا شوق ہے تو۔ اس عاجز کو معاف رکھئے اس سمے تو شاہ لطیف(حضرت سید عبداللطیف شاہ بھٹائی) یاد آرہے ہیں۔ فرمایا ”جو ملتا ہے بانٹ لو، جس نے آج دیا کل بھی برکت دے گا۔ بخیلی اسے شدید ناپسند ہے”۔ عجیب بات ہے ہم علم، محبت اور اناج کی تقسیم سے بھاگتے ہیں۔ نفرتیں، زخم اور دوریاں جھولی بھر بھر دیتے ہیں۔ ہمارے عہد کے شاہ و گدا، مْلا و سیاست کار سبھی خواہشوں کے پیچھے سرپٹ بھاگتے چلے جارہے ہیں
مکرر عرض ہے انسان دوستی کے جذبات ”ہوا” ہوئے برادر کشی کے دھندے نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ کیا ایک بار پھر سرائیکی وسیب پر 1980ء کی دہائی کے منحوس سائے منڈلارہے ہیں؟ اس سادہ سا سوال پر غور ضرور کیجئے۔ امن و محبت، مہمان نوازی اور علم دوستی کے حوالے سے ان گنت صدیوں سے مشہور وسیب میں نفرتوں کا بیوپار کرنے والوں کی کیسے بن آئی۔ کاش کسی کو یاد پڑتا اسی وسیب کی مٹی میں آرام فرمانے والے حضرت سید شمس الدین سبزواری المعروف شاہ شمس تبریز نے کہا تھا ”اس کی رحمت کو پانے کیلئے اس کے بندوں سے محبت لازم ہے۔ کوئی خالق اپنی تخلیق کی بربادی کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کرتا۔ دنیا اور اس میں آباد اس کی تخلیق ہیں۔ ان سے محبت اس کے دربار میں سرخرو کرتی ہے اور نفرتوں کے بیج بونے سے عذاب کو لازم”۔ اب کون ہے جو سینے پر ہاتھ کر غور کرے کہ ہم سرخرو ہونے کی دوڑ میں ہیں یا عذابوں کو دعوت دینے کی؟۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے