پاک افغان کشیدگی کابنیادی سبب

اسلام آباد کی جانب سے دہشت گرد گروپوں بالخصوص افغانستان میں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر افغان طالبان کے ردعمل پر دفتر خارجہ کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیاہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفینگ کے دوران افغانستان میں ان دہشت گرد گروپوں کی موجودگی اور سرگرمیوں پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے خدشات پر زور دیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشتگرد گروپوں کے افغانستان میں خفیہ ٹھکانے ہیں، پاکستان کو ان کی مستقل موجودگی پر سنگین تحفظات ہیں، اور یہ پاکستان میں مسلسل حملے کر رہے ہیں جس سے جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے درمیان سامنے آیا ہے، طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے اسلام آباد میں مایوسی بڑھ رہی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد حملوں میں ملوث ہیں۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک ہفتہ قبل دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے اس ضمن میں کابل کے اقدامات کو سراہا گیا تھا اس ایک ہفتے کے دوران ایسا کیاہوا کہ ایک مرتبہ پھرمایوسی کے اظہار کی نوبت آگئی بہرحال اس سے قطع نظر محولہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کووسیع کر رہا ہے اور اس کے اثرات دونوں ملکوں کی سفارتی ہمسایہ گیری اور تجارتی تعلقات پر بھی پڑ رہے ہیں۔پاکستان کی جانب سے یہاں مقیم افغان شہریوں کے حوالے سے سخت اقدامات سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ معاملات اور تعلقات کی سمت کیا ہے ۔ اب تواس طرح کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ شاید گرم تعاقب کی نوبت آجائے ۔ پاکستان پرعالمی برادری کی طرف سے تو افغان مہاجرین کے حوالے سے معاہدے اور بین الاقوامی قوانین کے احترام پرزور دیا جارہا ہے مگر افغانستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر جس قسم کاردعمل آناچاہئے وہ نظر نہیں آتا۔ اسامہ بن لادن کی حوالگی کے معاملے پر کیاصورتحال سامنے آئی تھی اس سے ہی طالبان عبوری حکومت کوسبق سیکھنا چاہئے بہرحال وہ ایک الگ نوعیت کامعاملہ تھا یہاں پڑوسی ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین براہ راست استعمال ہو رہی ہے اور وہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیںجن کا خاتمہ کئے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری ممکن نہیں ہو سکتی۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال