این ایچ اے اور چترال کی سڑکیں

دنیا میں ترقی سٹرکوں ، ریلوے ،ہوائی اڈوں، اور بندرگاہوں سے داخل ہوتی ہے ۔ دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیںان کی سڑکیں ، ریلوے ، ہوائی اڈے اور بندرگاہیں مثالی ہوتی ہیں ۔اس لیے وہاں ترقی دیرپا ہے اور مزید ترقی ہورہی ہے جبکہ پاکستان میں ترقی نہ ہونے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ یہاں ان تمام مواصلاتی شعبوں میں خرابی ہے ۔پاکستان کی بیشتر آبادی ان سہولیات سے محروم ہے ۔ پاکستان کے پاس بندرگاہیں ہیں لیکن ان کا انتظام اور وہاں موجود سہولیات اتنی ناقص ہیں کہ اس سے فائدے کی جگہ نقصان ہورہا ہے ۔ ریلوے جو انگریزوں نے بنائی تھی وہ ہماری قابل حکومتوں نے دو تہائی ناقابل استعمال بنا دی ہے اور جو ہے وہ بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے بجائے فائدے کے قومی وسائل پر بوجھ ہے ۔ لوگ اس کے اثاثوں پر قابض ہیں اور اس کے اہلکار ہی اس کی تباہی کے سفیر ہیں ۔ ہوائی مواصلات ایک اور بوجھ ہے جس کے لیے قرض پر چلنے والی معیشت سے اربوں روپے نکال کر اس کو چلایا جارہا ہے ۔ گزشتہ سیاسی حکومتوں نے اس کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اس میں اتنی ملازمتیں سیاسی طور پر دی گئی ہیں کہ اب سترہ جہازوں کے لیے ہزاروں ملازم ہیں لیکن اس کے باوجود ان سے سترہ کمرشل جہاز چل نہیں رہے ۔اب باقی بچیں سڑکیں جس کے لیے ملک میں ایک ادارہ ہے جسے ہم نیشنل ہائی وے اتھارٹی کہتے ہیں ۔ یہ ادارہ ملک میں سڑکیں بناتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہے ۔ اس ادارے کا ترقیاتی بجٹ پاکستان میں سب سے زیادہ ہے ۔پاکستان میں ترقیاتی کام کرنے والے ادارے کرپشن کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ جہاں ترقیاتی بجٹ کا آدھا حصہ پہلے ہی آپس میں بانٹ لیا جاتا ہے اور جو بجتا ہے اس پر ٹھیکہ دار ہاتھ صاف کرلیتا ہے ۔یہ سب کچھ کھلے عام ہوتا ہے اور اس پر اب تک کسی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اس لیے کہ حکومت کی ترجیحات میں یہ سب شامل ہی نہیں ہوتا۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں مواصلات کا عملی اور حقیقی نظام نہ ہونا رکاوٹ ہے اس لیے کہ پاکستان کے تمام علاقے کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔کہیں سے سیمنٹ ،تو کہیں سریا ، کہیں سے گندم تو کہیں سے دیگر اجناس و سامان پہنچانا ہوتا ہے ۔ ریلوے کی عدم موجودگی سے ان سڑکوں کے نظام پر ہی زیادہ تر انحصار ہوتا ہے ۔ہم بیرونی دنیا سے کراچی کے ذریعہ منسلک ہیں جہاں کی بندرگاہ سے لائی جانے والی اشیاء ملک کے دیگر حصوں تک بذریعہ سڑک پہنچائی جاتی ہیں ۔ ملک کے بڑے شہروں تک کسی حدتک رسائی آسان ہے جس کا سبب موٹرویز اور دیگر بڑی سڑکوں کا ہونا ہے ۔ اگرچہ ان سڑکوں کی حالت بھی اس قابل نہیں ہے کہ ان کو بہتر کہا جاسکے مگر مجبوری میں ان سے کام چل رہا ہے ۔ لیکن ترقی پذیر اضلاع اور خصوصاً پہاڑی علاقوں تک سڑکوں کی رسائی بہت ہی خراب حالت میں ہے اور اس کی وجہ بھی ایک ہی ادارہ ہے وہ ہے این ایچ اے ۔یہ ادارہ ان سڑکوں سے بہت زیادہ پیسے بھی کماتا ہے صرف موٹرویز کی کمائی سے سالانہ کئی علاقوں کی تمام سڑکیں بنائی جاسکتی ہیں ۔لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ پاکستان کے شمال میں واقع چترال کے دو ضلعے ایسے ہیں جو مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں کہ وہاں کے انسانوں کو ہموار آرام دہ سڑک کی سہولت اب بھی میسرنہیں ہے ۔ چند برس پہلے تک یہ دونوں ضلعے دنیا سے چھ ماہ کٹ کر زندگی گزارتے تھے ۔ پھر لواری سرنگ کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہوا ۔ مگر لواری سرنگ دنیا کی واحد سرنگ ہے جس میں سرنگوں والی کوئی خصوصیت نہیں ہے بس ایک تاریک سا راستہ بنایا گیا ہے جس سے گاڑیاں گزر سکتی ہیں ۔ اس کے اندر وینٹیلیشن کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔اس کے اندر دیگر سہولیات اور سیفٹی کے انتظامات بھی نہیں ہیں ۔ اس نو کلومیٹر کے ٹنل میں زہریلا دھواں اتنا ہوتا ہے کہ دمے کے مریض اس میں باآسانی دم توڑ سکتے ہیں لیکن حکومت کو اس سے کیا غرض ۔اس کی اپروچ سڑکوںکی تعمیر گزشتہ دس برسوں سے مکمل ہی نہیں ہورہی ۔چترال سائیڈ پر اپرووچ روڈ جو این ایچ اے کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اول تو اس پر کام نہیں ہورہا جس کی وجہ سے مسافروں کی زندگیوںکو خطرہ لاحق ہوتا ہے دوسری طرف ان سڑکوں پر کام اتنا ناقص ہے کہ اس کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔ چترال چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا علاقہ ہے جہاں بارشیں زیادہ ہورہی ہیں جس سے سیلابوں میں اضافہ ہورہا ہے ، برف باری اور برفانی تودے گرنے کے واقعات میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔یخ بستہ برف کے کروڑوں ٹن ذخیرے اب آہستہ آہستہ پگھل کر اپنی جگہ چھوڑ رہے ہیں جس سے سالانہ کی بنیادپر تباہی ہورہی اور ہر برس اس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ جس سے یہاں موجود سڑکوں کا نظام جو پہلے ہی ناگفتہ بہ ہے وہ مزید خرابی کی طرف جارہا ہے ۔ چترال کی پاکستان کی لیے اہمیت کئی حوالوں سے ہے ۔ یہ پاکستان کا سرحدی صوبہ ہے ، ان دواضلاع سے پاکستان کی رسائی وسطی ایشیائی ممالک تک ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پانی کے ذخائر یہاں پر ہیں ۔ معدنیات سے یہ علاقہ مالامال ہے ۔ اس علاقے میں جنگلات ہیں ۔ گلگت بلتستان کے لیے متبادل راستہ بھی چترال ہی ہے ۔دنیا کے نایاب جانور اس خطے میں پائے جاتے ہیں ۔ دنیا سے ختم ہونے والے نباتات کی بہت سی اقسام یہاں محفوظ ہیں ۔ اس لیے یہاں تک سڑکوں کی رسائی بہت زیادہ ضروری ہے ۔ چترال شندور روڈ پر آج کل کام ہورہا ہے لیکن ایک تو یہ کام چیونٹی کی رفتار سے ہورہا ہے اور پھر اس کام کا معیار انتہائی خراب ہے ۔اس کی وجہ این ایچ اے کی نااہلی اور مرکزی ٹھیکہ دار کی غفلت ، کنسلٹنٹ اور ٹھیکہ دار کی ملی بھگت ہے۔ان سڑکوں پر کام کو دیگر چھوٹے پیٹی ٹھیکہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ان کو بہت کم معاوضہ پر یہ کام دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سٹینڈرڈ کے مطابق یا پروٹوکول کے مطابق یہ کام نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک یا دو برس بعد یہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ چترال میں سڑکیں پہاڑوں میں بنائی جاتی ہیں اس لیے ا ن پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ان سڑکوں کو مضبوط حفاظتی پشتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس کی طرف ادارہ اور ٹھیکہ دار توجہ نہیں دیتے اور خانہ پری کرکے آگے نکل جاتے ہیں ۔ اس کی سبب سے آنے والے برسوں میں ہزاروں حادثات ہوں گے اور ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوجائیں گی۔ پھر یہ سڑک دریائے چترال کے ساتھ ساتھ بنائی جارہی ہے ٹھیکہ دار اپنی سہولت کے لیے تمام ملبہ دریائے چترال میں پھینک دیتا ہے جس سے دریا کا قدرتی راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور پانی ایک جگہ زیادہ جمع ہوجاتا ہے بعد میں جب سیلاب آتے ہیں تو یہاں پانی بہت زیادہ جمع ہوکر جب ایک ساتھ نشیبی علاقوں کی طرف جاتا ہے تو اس سے دریا کے آس پاس بسنے والے لوگوں کے املاک اور زمینوں کا صفایا ہوجاتا ہے ۔جس طرح اس مرکزی شاہراہ پر کام ہورہا ہے یہ چند برسوںمیں ہی اس علاقے کے لوگوں کے لیے وبال جان بن جائے گا اس لیے کہ پہاڑوں میں ٹنل کرکے بلاسٹنگ کی جارہی ہے جس سے پہاڑوں میں کریک پڑ جاتے ہیں اور یہ مسلسل گرتے رہتے ہیں ۔دنیا میں ان کو میش کی ٹیکنالوجی سے دوبارہ سیمنٹ اور سریے کی جال سے جوڑا جاتا ہے تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو مگر اس پوری سڑک پر ایسا کچھ نہیں کیا جارہا۔ اس لیے ہر برس بارشوں اور زلزلوں میں یہ پہاڑ گرتے رہیں گے اور لوگوں کا جانی نقصان بھی ہوگا اور بنائی گئی سڑک بھی تباہ ہوگی۔ کیا حکومت جو اتنا خطیر سرمایہ خرچ کررہی ہے وہ اس بات کا انتظام نہیں کرسکتی کہ یہ کام عالمی معیارات کے مطابق ہو ۔ ایسا کرنا کونسا مشکل کام ہے ۔ پوری دنیامیں ایسا ہوتا ہے ۔یہ ایک دفعہ کا خرچہ ہے جس کا مصرف اگر اصولوں اور معیارات کے مطابق ہو تو اس سے اس علاقے کے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گی اور حکومت ہر برس مزید خرچہ کرنے سے بچ جائے گی ۔ چترال کے نوجوان سڑکوں کی اس ناگفتہ بہ صورتحال سے اتنے تنگ تھے کہ گزشتہ برسوں میں ایک وکیل سوشل ورکر وقاص احمد کی سربراہی میں انہوں نے ایک تنظیم بنائی جو سڑکوں کی اس ناگفتہ بہ حالات کو مختلف طریقوں سے حکام بالا کے نوٹس میں لاتے رہے ۔ وہ اب بھی یہ کام کرتے ہیں مگر ان کی شنوائی کہیں پر بھی نہیں ہورہی ہے ۔ اس ملک میں ادارے تو کام نہیں کررہے مگران پر نظر رکھنے والے ادارے بھی انہی کی روش پر گامزن ہیں ۔ جبکہ ایک امید عدالتوں سے ہوتی ہے مگر اس معاملے میں عدالتوں کا بھی کوئی خاص رول نظر نہیں آرہا ۔ اس لیے سیول سوسائٹی اور عدالتوں کے معزز چیف جسٹس صاحبان سے گزارش ہے کہ اگر وہ مہینے میں ایک گھنٹے کے لیے اپنی توجہ اس طرف مبذول کریں تو یہ عظیم ناانصافی نہیں ہوگی ۔ورنہ جب چھٹیاں منانے بچوں کے ساتھ ان علاقوں میں جائیں گے تو آپ کے بچے سوال کریں گے کہ یہ سب زیادتی جب ہورہی تھی آپ کہاں تھے ۔آپ اختیار رکھتے ہیں ۔ آپ ان سب کو پابند کرسکتے ہیں ۔ آپ کے خوف سے یہ کام میں بہتری لائیں گے ان کاموں پر جو برسوں کا عرصہ یہ لوگ ضائع کرتے ہیں وہ نہیںہوگا اور ان غریب سہولتوں سے محروم لوگوں کی زندگی میں سہولت آجائے گی اور ان کاحفاظت کے ساتھ اپنے گھروں تک پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟