باہمی معاملات خود طے کرنا بہتر ہو گا

افغان صورت حال پر پاک امریکی مذاکرات اگلے ہفتے اسلام آباد میں ہونا متوقع ہے بتایاجاتا ہے کہ تین امریکی وفود سے مختلف معاملات پر بات چیت ہو گی جس میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹی پی کے حوالے سے تنازعہ جیسا حساس موضوع بھی شامل ہے بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر دیگر امور کے علاوہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہونے پر بات چیت ہوگی اور ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے مکمل خاتمے کی حکمت عملی پربھی مشاورت ہوگی۔ امریکی نمائندہ خصوصی پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان متعدد معاملات پر مشاورت جاری ہے ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ دورے امریکا کے ساتھ افغانستان کی صورتحال سمیت متعدد مسائل پر جاری مذاکرات کا حصہ ہیںتاہم یہ دورے صرف افغانستان کے ساتھ مسائل تک ہی محدود نہیں ہیں۔دیگر معاملات پر مذاکرات بہرحال دونوں ملکوں کے درمیان معمول کی ملاقاتیں اوربات چیت ہوں گی البتہ ٹی ٹی پی کی بیخ کنی کے معاملے کاتعلق افغانستان سے بھی ہے ہمارے تئیںپاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کا بہتر مفاد تو اسی میں ہو گا کہ وہ باہمی معاملات میں کسی تیسری قوت کو کسی بھی سطح پر شامل کرنے سے گریز کریں اور دونوں ممالک باہم مذاکرات اور معاملت سے باہمی تنازعات کا حل تلاش کریں سنجیدہ سعی کی جائے تو دونوں ممالک کے لئے مفاہمانہ انداز میں باہمی معاملات کا طے کیا جانا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہئے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو کسی نہ کسی طرح ماضی سے لے کر اب تک ہر دو ممالک روس اور امریکہ سے مشکلات درپیش رہی ہیں اور دونوں ممالک مشکل حالات سے گزرے ہیں اب نوبت اس کی کیوں آگئی ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے انخلاء کے وقت اربوں روپے کا جدید ترین اسلحہ افغانستان چھوڑا جو خواہ جس طرح سے بھی ہوا ایسے گروپ کے ہاتھ لگا جو اب پاکستان میں دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ اور پولیس و سیکورٹی فورسز کونشانہ بنانے کے لئے استعمال ہو رہا ہے ایسا قصداً عمداً کیا گیا ہو یاپھرایسا کرنا وقت اور حالات کاتقاضا تھا بہرحال اس سے قطع نظر اس معاملے کے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کا بنیادی نکتہ اور وجہ نزاع افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہے جہاں ٹی ٹی پی کے مراکز اور ٹھکانے ہیں اور باربار گرفتار ہونے والے عناصر اور دیگر شواہد سے ثابت ہوتا آیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے پاکستان بار بار اس حوالے سے کابل کی توجہ بھی مبذول کراتا آیا ہے مگر جواب مایوس کن ہے بلکہ بعض اوقات الٹا پاکستان کو مطعون کرکے اپنے داخلی معاملات سلجھانے میں ناکامی کا طعنہ تک دیا جاتا ہے حالانکہ پاکستان کابل سے صرف ان کی سرزمین سے مداخلت کی روک تھام کامطالبہ کرتا آیا ہے جو مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کا تقاضااور دوحہ معاہدے کے تحت اس کی دوہری ذمہ داری بھی ہے اس ضمن میں مایوسی کے بعد پاکستان کی جانب سے متبادل کی تلاش اور افغانستان کی سرزمین پر ناکام اور ادھورے مشن کے حامل ملک امریکہ سے اس ضمن مذاکرات و معاملت اگرچہ کوئی خوش آئند صورتحال تو نہیں لیکن اسے بامر مجبوری کے زمرے میں بہرحال شمار کیا جا سکتا ہے چونکہ امریکہ ہی کے باعث اس خطے اور افغانستان کے معاملات میں بگاڑ اور سرحد پار یعنی ہماری سرزمین کی طرف بھی دہشت گردی کی مراجعت ہوئی لہٰذا اس ضمن میں ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا کردار ادا کرے دوسری جانب ایک مرتبہ امریکہ سے فاصلہ قائم کرنے کے باوجود دوبارہ سے ایک ایسے ملک کے قریب جانا جو مطلب برآری کے بعد منہ پھیر لینے کا عادی ہے یہ سب اپنی جگہ پریشان کن امرضرور ہے جس سے قطع نظر دونوں ملکوں کے درمیان ممکنہ مذاکرات میں کیا طے ہوتا ہے اور تعاون کی کیا راہیں تلاش کی جاتی ہیں یہ اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر خطے میں اور افغانستان کے اندر جاری ایسے حالات جس کی روک تھام کی ان کی جانب سے سعی نہیں ہو رہی ہے امریکہ پھر سے خطے میں نئی راہیں تلاش کرنے آرہا ہے جس کی روک تھام کی صورت پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس خاص نکتے پرمفاہمت اورافغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف ا ستعمال ہونے سے روک کر روکنے کی صورت میں موجود ہے ۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان اس حوالے سے کسی ممکنہ حکمت عملی اور اقدام سے بہرحال افغانستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ایسے میں موجودہ وقت کی افغان پالیسی آبیل مجھے مار کی سی لگتی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف پڑوسی ملک سے معاملات میں بہتری آئے بلکہ مداخلت کارعناصر کو سرحد کے ہر دو طرف مواقع نہ مل سکیں۔ باہمی تعلقات میں بہتری کے لئے خود پہل کرنا اور باہمی معاملات کا مل بیٹھ کر حل تلاش کرنے سے موزوں حکمت عملی طے کرنے اور ضرورت کے ادراک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیںجسے جتنا جلد اختیار کیاجائے اتنا بہتر اور دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی