قابل تقلید عمل

لاہور ہائیکورٹ نے آبی آلودگی کی وجہ بننے والی فیکٹریوں کو 10،10لاکھ روپے جرمانہ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔دوران سماعت عدالت نے سیل ہونے والی فیکٹریوں کو ڈی سیل کے لیے جوڈیشل واٹر کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔عدالت نے آلودگی کا باعث بننے دیگر والی فیکٹریوں کو بھی 10،10لاکھ جرمانہ کرنے کی ہدایت کی جب کہ اس دوران ڈی جی ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ ماحولیات نے جو فیکٹریاں سیل کی ہیں مالکان نے خود ڈی سیل کردی ہیں، انڈسٹریز والے خود سے فیکٹریاں ڈی سیل کر لیتے ہیں۔ اس موقع پر ممبر واٹر کمیشن نے بتایا کہ رات کو آلودگی کا باعث بننے والی فیکٹریاں رات کو چلائی جاتی ہیں محکمہ ماحولیات کے افسران رشوت لیتے ہیں۔ ممبر واٹر کمیشن کے بیان پر عدالت نے محکمہ ماحولیات کے افسران کو فوری وارننگ جاری کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے کہا کہ پانی ضائع کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے10ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے اور پانی کا بے دریغ استعمال کرنے والے کمرشل صارفین کو20ہزار روپے جرمانہ کیا جائے۔ماحولیاتی کثافت میںپشاور کی صورتحال بھی لاہور سے زیادہ مختلف نہیں گزشتہ دنوں ہمارے اخبار میں یکے بعد دیگرے رپورٹس سے صورتحال سے آگاہی دی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود متعلقہ ادارے ٹس سے مس نہیں ہوئے جس کا حکومت کو سخت نوٹس لینا چاہئے ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ سے آلودگی کے ذمہ دار فیکٹریوںکوجرمانہ اور پانی ضائع کرنے والے گھریلو صارفین کو دس اور تجارتی صارفین کو بیس ہزار روپے جرمانہ کرنے کی ہدایت پرعملدرآمد احسن ہو گا جس کی خیبر پختونخوا اوربالخصوص صوبائی دارالحکومت میں تقلید کی اشد ضرورت ہے۔ مشکل امریہ ہے کہ شہری ترقیاتی ادارے اور محکمہ بلدیات کے اہلکار توجہ دلانے اور شکایات کے باوجود گھروں سے گلیوں میں بہنے والے پانی کے ضیاع کا نوٹس نہیں لیتے ایسے میں بامر مجبوری یہ تجویز ناموزوں نہیں کہ حیات آباد سمیت شہرکے دیگر علاقوں میں جہاں پانی کاضیاع نظرآئے ٹیوب ویل چلانے کے اوقات میں کمی کی جائے تاکہ شہریوں کوپانی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا جاسکے اور اس کے ضیاع کے تدارک پران کومتوجہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی