افغان عبوری حکومت ”دوحہ معاہدے“ پر عملدرآمد میں ناکام

ویب ڈیسک: دوحہ معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری، افغان عبوری حکومت معاہدے پر عملدرآمد کرانے میں یکسر ناکام ہو چکی ہے جسے عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا جانے لگا ہے۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ امریکہ اور طالبان کے مابین باہمی رضامندی سے 2020 میں کیا گیا اور اس حوالے سے معاہدے پر دونوں جانب سے دستخط کئے گئے تھے۔
امریکہ اور افغانستان کے مابین طے معاہدے کے مطابق امریکی فوجیوں کے انخلاء کا ٹائم لائن دونوں ممالک نے طے کیا تھا، یہ بھی اس معاہدے کا حصہ ہے کہ طالبان نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں دہشتگردی کی روک تھام کی یقین دہانی کرائی تھی جس میں افغان عبوری حکومت ناکام رہی ہے۔
افغان طالبان سے ضمانت لی گئی تھی کہ وہ ایسے دہشتگرد گروپوں یا افراد کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کریں گے جو عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہوں۔ معاہدے کے مطابق عالمی سلامتی کیلئے خطرہ محسوس کئے جانوالوں کو طالبان ان افراد کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت نامہ فراہم نہیں کریں گے۔
ذرائع کے مطابق اس سمیت دیگر شقیں جو دوحہ معاہدے کا حصہ ہیں ان مِیں سے کسی بھی وعدے کا طالبان حکومت نے پاس رکھا نہ اسے عملی جامہ پہنایا۔
یاد رہے کہ افغان حکومت نے القاعدہ اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے جو عالمی امن کیلئے کسی بھِ طرح خطرے سے کم نہیں۔ اس حوالے سے امریکی میڈیا میں کہا جانے لگاہے کہ افغانستان ایک بار پھر دہشتگردی کی آماجگاہ بن چکا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سےپاکستان میں دہشتگردی واقعات میں اضافہ ہوا، حالیہ دہشتگردی واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود دہشتگردوں کی پناہ گاہوں تک جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہی ہے کہ پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں جو نہ صرف علاقائی امن کیلئے خطرہ ہے بلکہ یہی دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہی ہے۔
افغان عبوری حکومت اگر دوحہ معاہدے کا پاس رکھتی تو علاقائی اور عالمی امن کو درپیش دہشتگردی خطرات سے بچا جا سکتا تھا ۔

مزید پڑھیں:  گیری کرسٹن وائٹ بال ،جیسن گلیسپی قومی ٹیسٹ ٹیم کے کوچ مقرر