آزادکشمیر کی تحلیل، مسئلے کاحل یا ایک اور مسئلہ؟

سری نگر تو ہمارے ہاتھ میں اتنا ہی تھا کہ مسئلہ ہمارے پاس تھا زمین اور آبادی بھارت کے تسلط میں تھی مگر اب بھارت جس تیزی سے یک طرفہ اقدامات اُٹھا رہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ مسئلہ بھی پاکستان کے ہاتھ سے چھین لے گا ۔بھارت چونکہ مضبوط ہوتی ہوئی معیشت ہے اور چین کے مقابلے کے لئے امریکہ کی مستقل ضرورت ہے اس لئے بھارت کے خلاف کسی بھی عالمی دبائو کی امید اب عبث ہے ۔بھارت اس وقت اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ کشمیر پر اپنا کیس مضبوط بنا رہا ہے ۔اس کے برعکس پاکستان معاشی طور پر کمزور ہوچکا ہے اور فطری طور پر کشمیر پر اس کی آواز اور اپیل کی صلاحیت کمزور پڑ چکی ہے ۔بھارت پاکستان پر براہ راست اپنا اثرو رسوخ قائم نہیں کر سکا ایک مدت تک امریکہ کے ذریعے بھارت پاکستان سے اپنی شرائط منواتا رہا اور اب اس دائرے میں عرب ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں جو بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی اور ثقافتی تعلقات کی ڈور میں بندھ چکے ہیں اور پاکستان کی معیشت کی نبض چلنے میں ان ملکوں کا گہرا دخل ہے ۔بعض عرب ملک پاکستان کی اس کمزور ی اور اپنے اوپر انحصار کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کشمیر پالیسی کو بھارتی نکتہ ٔ نظر سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ان مطالبات اور فرمائشوں میں پاکستان کے روایتی موقف یا کشمیریوں کی مزاحمت اور خواہشات کے لئے اسی طرح کوئی جگہ نہیں جس طرح اسرائیل سے معاملات طے کرتے ہوئے ان کی کتاب میں فلسطین نامی کسی مسئلے اور فلسطینی نامی کسی مخلوق کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اب نریندرمودی کے اقدامات کی توثیق ہے ۔یہ وہی صورت حال ہے جو نوے کی دہائی میں اس وقت پیدا ہوئی تھی جب کانگریس کے نرسہمارائو وزیراعظم تھے اور کشمیر میں بھارت پرمزاحمت کا شدید دبائو تھا تو بھارتی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرا ردیا تھا ۔اس وقت تک شملہ معاہدے میں مسئلے کی نوعیت تبدیل کئے جانے کے باوجود بھارت دبے لفظوں میں مسئلے کو دوطرفہ بنیادوں پر حل کرنے کی بات کرتا تھا مگر اس پارلیمنٹ کی قرارداد کی منظوری کے بعد بھارت نے یہ کہہ کرکشمیر پر اپنا موقف مزید سخت کر دیا کہ اب تو ہماری پارلیمنٹ نے اسے اٹوٹ انگ قرار دیا ہے اب تو کشمیر پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی ۔جب بھی بھارت سے مذاکرات کی بات کی گئی تو وہ اپنی پارلیمنٹ کی یکطرفہ قرارداد کا حوالہ دے کر اس سے کنی کترانے لگا ۔اس قرارداد کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں تھی نہ یہ اقوام متحدہ میں برسوں تک کشمیر کے حوالے سے ہونے والی کاروائی کا متبادل تھی اور نہ ہی بین الاقوامی فورم کی کاروائی کی تنسیخ کے مترادف تھی مگر بھارت نے اپنی ہٹ دھری کو نیا موڑ دینے کے لئے اس قرارداد کا سہار لینا شروع کیا ۔اب بھارت کی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارت کے اس رویے کو مزید تقویت دینے کا باعث بنے گا اور اس کا مقصد اپنے داخلی موقف کو مزید بے لچک اور سخت گیر بنانا ہے اور یوں اس سے مسئلہ کشمیر کے کسی بامعنی حل کو مزید پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔جب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی جائے گی تو بھارت ہماری پارلیمنٹ کے بعد ہماری سپریم کورٹ کاراگ الاپنا شروع کرے گا ۔اب بھارت زیادہ بے خوف اور ہر قسم کے دبائو سے آزاد ہوکر کشمیر میں آبادی اور جغرافیے کے ساتھ اپنی منصوبہ بندی کے تحت چھیڑ چھاڑ کر ے گا ۔معاملہ یہیں پر رکنے والا نہیں بلکہ اب آزادکشمیرپر بھارت کا دبائو بڑھتا ہوا محسوس ہوگا ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر نام کا کوئی حصہ نہیں بلکہ یہ سب جموں وکشمیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اب آزادکشمیر کو مہاراجہ کے الحاق شدہ علاقے کا حصہ قراردے کر اس حصے پراپنا دعویٰ زور وشور سے آگے بڑھائے گا ۔وہ آزادکشمیر کے خلاف عملی پیش رفت کرتا ہے یا نہیں مگر وہ مظفرآباد پر بڑھائے جانے والے دبائو کوسری نگر میں پاکستان کو نیوٹرل کرنے کے لئے استعمال کرے گا تاکہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے اسی طرح لاتعلق ہوجائے جس طرح مصر ،اُردن اور اب دوسرے عرب ممالک ایک ایک کرکے نیوٹرل ہوتے چلے گئے تھے ۔چونکہ بھارت اب قدم قدم پر اسرائیل ماڈل پر عمل کر رہا ہے اس لئے پاکستان کی نیوٹرلائزیشن اس عمل کا ایک اہم پڑائو ہے ۔پاکستان کو معاشی خوش حالی کا جھانسہ دینا اور ایک تصوراتی جنت کا وہی خواب دکھا نا مقصود ہے جو کیمپ ڈیوڈ میں مصر کو دکھایا تھا مگر آج چالیس سال سے زیادہ کے عرصے کے بعد مصر بدستور معاشی بدحالی کے دہانے پر اور جمہوریت سے کوسوں دور ہے ۔نہ امن ِ عامہ کی صورت حال اچھی ہے اور نہ ہی معاشی خوش حالی کا دور دور تک کوئی امکان ہے کیونکہ اسرائیل کے پہلو میں مصر کو معاشی طور پر بدحال رکھنے میں ہی اسرائیل کا بھلا ہے ۔اسرائیل مخالف کو سوچ کو مصر میں سختی سے کچلناعالمی منصوبے کا حصہ رہا ہے۔پاکستان کوکشمیر پر نیوٹرل ہوجانے کی صورت میں معیشت کی بحالی اور خوش حالی کو جو سراب دکھایا جا رہا ہے مصر کے آئینے میں جھانک کر دیکھیں تو اس کی ساری حقیقت بھی اتنی ہی معلوم ہوتی ہے ۔اس بدلی ہوئی صورت حال میں پاکستان کے لئے آپشن اور کارڈز محدود ہو رہے ہیں ۔جوں جوں مودی مظفرآباد پر دبائو بڑھائے گا جو یقینی ہے اسی انداز سے پاکستان عجلت میں فیصلے کرنے پر مجبور ہو گا کیونکہ پاکستان کی کشمیر پالیسی پروایکٹو کی بجائے ری ایکٹیو ہے اور ردعمل پر مبنی پالیسی میں وہ گہرائی اور گیرائی نہیں ہوتی جو اصل پالیسی میں ہوتی ہے کیونکہ اصل پالیسی بہت سوچ بچار کے بعد بنتی ہے اس کے پیچھے گہری منصوبہ بندی اور بے پناہ وسائل اور بڑے دماغ ہوتے ہیں ۔ردعمل کی پالیسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ حکومت پاکستان آزادکشمیر کو کسی ممکنہ دعوے کی زد میں آنے سے بچانے کے لئے تحلیل ہی کر دے اس کا وجود اس انداز سے ختم کردیا جائے کہ یہ شناخت ممکن نہ رہے کہ ماضی کی جموں وکشمیر کی حدود کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتی ہیں۔یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنا کا ایک انداز ہے ۔خطرات کو آنکھیں بند کرکے ٹالا نہیں جا سکتا ۔خطرات کا مقابلہ عزم وہمت سے ہوتا ہے ۔پاکستان کو امریکہ کے جس نظام اور اتحاد کی لڑی میں دوبارہ پرویا جا رہا ہے اس میں امریکہ کے جنوبی ایشیائی ایجنڈے اور چین مخالف بارات کا واحد دولہا بھارت ہے باقی سب چھوٹے ممالک یا تو مزارع ہیں یا شہ بالے۔ اس سسٹم کے ساتھ چلتے ہوئے پاکستان کو امریکہ کی لائن پر ہی چلنا پڑے گا ۔دوسرا راستہ امریکہ سے فاصلہ پیدا کرکے خطے میں چین کی پالیسی کی طرف جھکائو ہے ۔چین کی پالیسی یہ ہے کہ بھارت خطے کی ڈرائیونگ سیٹ سے دور رہے اور چین کا نمبردو بن کر رہے۔اس پالیسی میں ہی پاکستان کے لئے کوئی بہتری اور امید تھی ۔رہی یہ بات کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور کشمیر پر اپنا موقف ترک کرنے کے بعد پاکستان خوش حالی کے بام عروج پر پہنچے گااس خوش فہمی کی عملی تصویر دیکھنا ہو تو آج کے مصر کو دیکھنا چاہئے ۔آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے سنجیدہ چیلنجزکا آغاز ہورہا ہے مگر ان چیلنجز کے مقابلے کابہتر طریقہ پروایکٹیو پالیسی ہے ری ایکٹیو نہیں ۔آزادکشمیر کی تحلیل اور نہ آزادکشمیر میں روایتی جلسے جلوس سے بڑے چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں ۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی